بحیثیت ِاُمت ِ مسلمہ ہماری ساری اجتماعی مساعی کا ہدف‘ ہماری ساری اجتماعی زندگی کا مرکز و محور اور ہماری زندگی کا نصب العین ’’شہادتِ حق‘‘ یعنی اللہ کی گواہی دینا ہے. چنانچہ سورۃ المائدۃ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫
’’ اے ایمان والو! کھڑے ہو جاؤ اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے والے بن کر‘‘ .یعنی اللہ کا جھنڈا اٹھا کر کھڑے ہو جاؤ اور پوری دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی گواہی دو! 

یہی بات سورۃ النساء کی آیت ۱۳۵ میں بایں الفاظ فرمائی گئی:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ
’’ اے ایمان والو! عدل (کے قیام) کے لیے کھڑے ہو جاؤ اللہ کی گواہی دینے والے بن کر‘‘. 

پھر یہ گواہی صرف دنیا تک ہی محدود نہیں ہے‘ بلکہ آخرت میں بھی اُمت ِمسلمہ کو پوری نوعِ انسانی پر اور محمد رسول اللہ  کو اپنی اُمت پر یہ گواہی دینا ہو گی. سورۃ النساء کی آیت ۴۱ میں فرمایا گیا:

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱
’’پس (غور کرو کہ) اُس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور (اے محمد !) ان لوگوں پر ہم آپ کو بحیثیت گواہ کھڑا کریں گے؟‘‘

یعنی ہر اُمت اور ہر قوم کے نبی اور وہ لوگ کہ جنہوں نے دنیا میں حق کی گواہی دی ہو گی وہ محاسبۂ اُخروی کے وقت کھڑے کیے جائیں گے تو وہ گواہِ استغاثہ (prosecution witness) کی حیثیت کے حامل ہوں گے. وہاں اللہ کی عدالت میں وہ گواہی دیں گے اور اس بات کو testify کریں گے کہ اے پروردگار! تیری جو ہدایت ہم تک پہنچی تھی وہ ہم نے کسی کم بیشی کے بغیر‘ کسی چیز کو چھپائے بغیر‘ کسی مصلحت کا لحاظ کیے بغیر‘ اپنے کسی مفاد اور اپنے جسم و جان کے تحفظ کا خیال رکھے بغیر اِن تک پہنچا دی اور اس طرح اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی بلا کم و کاست دے دی اور اس گواہی کا پورا پورا حق ادا کر دیا. پھر یہی شہادت نبی اکرم اپنی اُمت پر دیں گے. اس کے بعد پھر افراد کا عمومی محاسبہ ہو گا. لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ جو حق تم تک پہنچا دیا گیا تھا‘ حق کی جو تبلیغ تم تک کر دی گئی تھی‘ اس کے ساتھ تمہارا کیا معاملہ رہا؟

یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں محمد رسول اللہ  اور دیگر انبیاء و رُسل علیہم السلام کے لیے ’’شاہد‘‘ اور ’’شہید‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں. چنانچہ سورۃ المزمل میں فرمایاگیا:

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾فَعَصٰی فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ فَاَخَذۡنٰہُ اَخۡذًا وَّبِیۡلًا ﴿۱۶﴾فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿٭ۖ۱۷﴾السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ کَانَ وَعۡدُہٗ مَفۡعُوۡلًا ﴿۱۸
’’(اے لوگو! ہوشیار ہو جاؤ آگاہ ہو جاؤ) بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیج دیا ہے‘ جیسے کہ ہم نے فرعون کی طرف (حضرت موسٰی ؑ کو) رسول (اور گواہ بنا کر) بھیجا تھا. پس فرعون نے (ہمارے) رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے (اسی دنیا میں) اس پر گرفت کی‘ وبال کی گرفت. پھر تم کیونکر بچ جاؤ گے اگر تم نے (ہمارے رسول کا) انکار کیا‘ اُس دن سے جو (خوف کے مارے) بچوں کو بوڑھا کر دے گا؟ اس دن آسمان پھٹ جائے گا. بے شک اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے.‘‘

سورۃ الاحزاب میں جہاں نبی کریم کی صفات اور اُن کا مشن بیان فرمایا گیا تو آپ کی اسی صفت ِشہادت کو دوسری صفات و اوصاف سے مقدم کیا گیا. چنانچہ فرمایا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶
’’اے نبی ! بے شک ہم نے آپ کو بھیجا شاہد‘ مبشر اور نذیر بنا کر اور اللہ کی طرف دعوت دینے والا اس کے حکم سے ‘اور ایک روشن چراغ بنا کر.‘‘ تو یہ ہے ہمارے دین میں شہادت کا تصور‘ اور ہر نبی اسی شہادتِ حق کے لیے بھیجا جاتا تھا اور ہر رسول کی غایتِ بعثت یہی ہوتی تھی.