سورۃ البقرۃ کی آیت زیرِدرس کے علاوہ سورۃ الحج کی آخری آیت میں بھی اُمت ِ مسلمہ کی غرضِ تأسیس اور اس کا مقصد وجود فریضۂ شہادت علی الناس کی ادائیگی قرار دیا گیا ہے. وہاں فرمایا گیا: ھُوَ اجْتَبٰـٹکُمْ’’اس نے تمہیں (اس مقصد کے لیے) چن لیا ہے.‘‘ سورۃ الحج کا آخری رکوع ہمارے مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں شامل ہے. اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ وہ ارسالِ وحی اور انسانوں تک اپنے پیغام کی تبلیغ کے لیے ملائکہ اور انسانوں میں سے بعض کو منتخب فرما لیتا ہے.

ارشادِ الٰہی ہے: اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ (الحج:۷۵اسی مقامِ اصطفائیت پر محمد رسول اللہ  فائز ہیں‘ چنانچہ آپ کا ایک لقب ’’مصطفی‘‘ بھی ہے. پھر اس فریضۂ شہادتِ حق کی اہمیت مسلمانوں پر واضح کرنے کے لیے ایک دوسرا انداز اور اسلوبِ بیان اختیار کیاگیا. چنانچہ فرمایا: وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿٪۷۸﴾ (الحج)
سورۃ الحج کی اس آیۂ مبارکہ کا چونکہ ’’شہادتِ حق‘‘ یا ’’شہادت علی الناس‘‘ کے موضوع سے گہرا تعلق ہے‘ لہذا میں چاہتا ہوں کہ ہم اس آیۂ کریمہ کا بھی قدرے تشریح و تفصیل کے ساتھ مطالعہ کر لیں. اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات جان لیجیے کہ اس آیت میں ’’وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ‘‘ سے ’’وَفِیْ ھٰذَا‘‘ تک ایک جملۂ معترضہ ہے‘ جو اکثر سلسلۂ کلام کے درمیان میں آ جایا کرتا ہے. ربطِ مضمون کے اعتبار سے ’’ھُوَ اجْتَبٰٹکُمْ‘‘ کا براہِ‘راست تعلق لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ سے جڑتا ہے. یعنی تمہیں اس نے چن لیا ہے‘ پسند فرما لیا ہے‘ تاکہ رسول تم پر گواہ بن جائیں اور تم بنی نوعِ انسان پر گواہ بن جاؤ!

اس آیۂ کریمہ کی تشریح و تفسیر سے قبل اس کا ایک رواں ترجمہ‘ بلکہ ایک ترجمانی ملاحظہ فرما لیں :

’’اللہ کے کام میں (In the cause of Allah) محنت کرو‘ کوشش کرو‘ جدوجہد اور کشمکش کرو‘ جیسا کہ اس کی جدوجہد کا حق ہے. اس نے تم کو (دوسری اُمم و اقوام کے مقابلے میں اپنے کام کے لیے) چن لیا ہے اور اس نے تم پر دین (کے احکام) میں کسی قسم کی تنگی بھی نہیں رکھی. یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑکا طریقہ ہے. اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے (نزولِ قرآن سے) پہلے بھی اور اس آخری کتاب میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو جائیں اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ. (یعنی رسول اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت ادا فرما کر تم پر اتمامِ حجت فرما دیں اور تم اپنے قول وعمل سے تاقیامِ قیامت نوعِ انسانی پر شہادتِ حق ادا کر کے حجت قائم کرتے رہو) پس تم لوگ (خصوصیت کے ساتھ) اقامت ِصلوٰۃ اور ادائیگیٔ زکو ٰۃ کا نظام قائم رکھو اور اللہ کو (اس کی کتابِ حمید‘ قرآن مجید کے واسطے سے‘ جو ’’حَبْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے) مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو. وہی (اللہ) تمہارا کارساز اور حامی و ناصر ہے. (لہذا مخالفت اور مصائب و مشکلات سے ہراساں نہ ہوں‘ تم کو حقیقی ضرر اور نقصان کوئی نہ پہنچا سکے گا) پس (اللہ تعالیٰ) کیا ہی اچھا کارساز اور کیا ہی اچھا مددگار ہے!‘‘

سورۃ الحج کی اس آخری آیت کے مطالعے سے یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ یہ شہادتِ حق ہی کی ذمہ داری ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کسی کو اپنا رسول منتخب کرتا ہے. چنانچہ اس کے لیے خاتم النبیین سیدالمرسلین محمدمصطفی مقامِ مصطفائیت پر فائز فرمائے گئے اور آنحضور  کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد شہادتِ حق کی یہ ذمہ داری تاقیامِ قیامت اُمت ِ مسلمہ کے سپرد کی گئی ہے.