یہ امر مسلّم ہے کہ کوئی جس قدر عظیم اور ارفع مرتبے کا حامل ہوتا ہے اس کی ذمہ داری بھی اسی قدر رفیع و عظیم ہوتی ہے. چنانچہ اُمت ِ مسلمہ کو مقام اجتبائیت پر فائز فرما کر اسے شہادتِ حق کی عظیم ذمہ داری کا حامل بنایا گیا. نبی اکرم  نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں ’’فَلْیُبَلِّــغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ یہ ذمہ داری اُمت کو منتقل فرما دی‘یعنی ’’جو لوگ یہاں موجود ہیں اب ان کا فرض ہے کہ اُن تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں.‘‘ لہذا اس فرمانِ نبوی کے مطابق نوعِ انسانی کے سامنے شہادتِ حق اور تبلیغ دین حق کی ذمہ داری کا بھاری بوجھ اُمت ِ محمد کے کاندھوں پر آ گیا ہے اور اُمت کے ہر ہر فرد کو انفرادی طور پر اور اُمت کو بحیثیت مجموعی اجتماعی طور پر نوعِ انسانی کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق کی شہادت دینی ہے.

شہادتِ حق کی یہ عظیم ذمہ داری ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم شعوری طور پر اس کی ادائیگی کے لیے کمربستہ ہوں‘ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ نہ ذمہ داری کا شعور ہے اور نہ مسئولیت کا احساس. پھر اس کی ادائیگی کی فکر ہو تو کیسے ہو؟ ہم اس بات سے تو بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم ’’اُمت ِ مرحومہ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہمیں ’’اُمت ِ وسط‘‘ بنایا گیا ہے‘ ہمیں ’’خیر اُمت‘‘ کا لقب دیا گیا ہے‘ ہم سیدالمرسلین اور خاتم النبیین  کی اُمت میں شامل ہیں اور امرِ واقعی کے طور پر یہ ہے بھی خوشی اور مسرت کا مقام لیکن افسوس کہ ہم کو اس بات کا بالکل احساس نہیں ہے کہ اس اُمت ِ وسط اور خیر اُمت میں شامل ہونے کے عز و شرف کے ساتھ ساتھ ہمارے کاندھوں پر کس قدر عظیم ذمہ داری کا بوجھ بھی آن پڑا ہے اور شہادتِ حق کی اس ذمہ داری کے بارے میں ہمارا احتساب ہو گا. بقیہ پوری نوعِ انسانی سے بازپرس بعد میں ہو گی‘ پہلے ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس حق کو کس طرح ادا کیا؟ تم رسولِ امین کے قائم مقام تھے‘ تم اللہ کی آخری کتابِ ہدایت کے حامل تھے‘ تم پہاڑی کا چراغ تھے اور زمین کے نمک تھے‘ تم نے اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت دینے کے لیے کیا محنتیں کیں‘ کتنی جدوجہد کی اور کتنی توانائیاں کھپائیں؟ غلبۂ دین ِحق کی جدوجہد اور فریضۂ شہادتِ حق کی ادائیگی میں کتنا مال کھپایا؟ کیا ان سوالوں کا کوئی جواب ہمارے پاس ہے؟ کیا ہم بارگاہِ خداوندی میں اس کا کوئی عذر پیش کر سکیں گے؟ اور خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اس محاسبے سے ہم سب کو لازماً سابقہ پیش آ کر رہے گا!