نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں اس فریضۂ شہادتِ حق کی ادائیگی کا انداز اور اس کی شان دیکھنے کے لیے آپ کا تیئیس سالہ دورِ نبوت نگاہوں کے سامنے لایئے تو معلوم ہو گا کہ اجرائے وحی اور منصب ِنبوت و رسالت پر فائز ہونے کے دن سے حیاتِ دُنیوی کے آخری سانس تک آپ کی ساری جدوجہد‘ کشمکش اور جہاد و قتال کا مرکز و محور یہی فریضۂ شہادتِ حق اور تبلیغ حق رہا ہے. آپ کی ساری محنت و مشقت میں یہ احساسِ ذمہ داری غالب رہا ہے کہ لوگوں پر حق کی گواہی دینے اور حق کے پہنچانے میں کوئی کمی نہ رہ جائے. آخرت کی جواب دہی کا یہ احساس اور شہادتِ حق اور تبلیغِ حق کی ذمہ داری کی یہ فکر نبی اکرم کو ہمیشہ دامن گیر رہی.

یہی احساس آپ کو مکہ کے کوچہ و بازار میں لیے لیے پھرتا رہا. کبھی گالیوں کی بوچھاڑ کا سامنا ہوا تو کبھی پتھروں کی بارش کا‘ کہیں طنز و استہزاء کے تیر برسائے جا رہے ہیں تو کہیں طعن و تشنیع سے جگر چھلنی کیا جا رہا ہے‘ کہیں گلے میں پھندا ڈال کر جان لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی حالت ِسجدہ میں پشت اور شانہ مبارک پر نجاست بھری اوجھڑی لادی جا رہی ہے. راستے میں کانٹے بچھائے جا رہے ہیں‘ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپؐ کے جاں نثاروں کو کہیں تپتی دھوپ میں مُنہ کے بل گھسیٹا جا رہا ہے‘ کہیں ان کے سینوں پر آگ دہکائی جا رہی ہے اور کہیں ان کو برچھیوں سے چھیدا جا رہا ہے. کبھی آپؐ اور آپؐ کے خاندان کو شعب ِابی طالب میں محصور کر کے بھوک اور پیاس سے تڑپا کر مار ڈالنے کے منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے .اور پھر یومِ طائف کی سختی کا اندازہ کیجیے کہ خود نبی اکرم  کے بقول آپؐ کی زندگی میں اس سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں گزرا. طائف کی گلیوں میں اوباش لڑکے پیچھے لگا دیے گئے ہیں‘ تمسخر اڑایا جا رہا ہے‘ پھبتیاں کسی جا رہی ہیں‘ پتھروں کی بارش سے جسمِ اطہر لہولہان ہے‘ پائے مبارک میں نعلین مبارک اس مقدس خون سے جم گئے ہیں. پھر قتل کی تیاریاں ہیں‘ ہجرت ہے‘ جوارِ بیت اللہ سے جدائی کا مرحلہ ہے‘ غارِ ثور ہے. 

آگے چلیے‘ مدینہ منورہ میں یہودیوں اور منافقوں کی ریشہ دوانیاں ہیں‘ بدر و اُحد کے معرکے ہیں‘میدانِ اُحد میں اپنے محبوب ساتھیوں کے تڑپتے لاشے ہیں‘ وہ لوگ جو دل سے پیارے تھے‘ نظروں کے سامنے خاک و خون میں غلطاں ہیں. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے عزیز چچا‘ جان نثار رفیق اور دودھ شریک بھائی کا چبایا ہوا جگر اور مثلہ شدہ جسم نگاہوں کے سامنے ہے. حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا لاشہ سامنے لایا جاتا ہے جس کو کفن تک میسر نہیں آ رہا اور اسے ایک چھوٹی سی چادر میں اس طرح لحد میں اتارا جاتا ہے کہ پاؤں گھاس سے ڈھانپے جاتے ہیں یہ وہ صالح نوجوان ہے کہ اسلام سے قبل مکہ میں اس سے زیادہ خوبصورت‘ معطر اور قیمتی لباس پہننے والا کوئی دوسرا نہ تھا اور یہی وہ جاں نثار صحابی ہیں جنہیں آنحضور نے بیعتِ عقبۂ اولیٰ کے بعد قرآن کی تعلیم و تدریس کے لیے مدینہ منورہ بھیج دیا تھا اور ان کی تبلیغ سے وہ میدان تیار ہوا جس کے نتیجے میں یثرب کو دارالہجرت اور مدینہ النبی بننے کا شرف حاصل ہوا. رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی معرکۂ اُحد میں خود رسول اللہ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے‘ خود کی کڑیاں رخسارِ مبارک میں اور سر مبارک میں پیوست ہوئیں‘ بے ہوشی کی کیفیت بھی طاری ہوئی.

غور کیجیے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کس لیے ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ ایک طرف فریضۂ ’’شہادتِ حق‘‘ کی ذمہ داری کا احساس تھا جو نبی اکرم  کو تمام مراحل سے گزار رہا تھا اور دوسری طرف اُمت ِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے لیے آنحضور کا اُسوۂ حسنہ نمونہ بننا تھا. اور اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو ان تمام مراحل سے اسی لیے گزاررہاتھا کہ آپؐ کے نام لیواؤں اور آپؐ سے عقیدت و محبت کے تمام مدعیان کو معلوم ہو جائے کہ خیر اُمت اور اُمت ِ وسط ہونے کا منصب جہاں ایک مقامِ عزو شرف ہے‘ وہاں اس مقامِ رفیع کی بڑی کٹھن اور بھاری ذمہ داریاں ہیں‘ جن کو نبی اکرم کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے انجام دینا ہو گا‘ جس کے بغیر محاسبۂ اُخروی سے رستگاری ممکن نہیں.