سورۃ الحج کی آخری آیت میں اُمت کا فرضِ منصبی شہادت علی الناس بیان فرمانے کے فوراً بعد امر کے صیغے میں اُمت کو تین احکام دیے گئے: (۱) فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (۲)وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (۳) وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ . ان کے آغاز میں کلمہ ’’ف‘‘ (بمعنی ’’پس‘‘) بہت معنی خیز ہے. فرمایا: (۱) پس نماز قائم کرو‘ (۲) زکوۃ ادا کرواور (۳)اللہ سے چمٹ جاؤ! اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو! اس آخری حکم ’’اعتصام باللہ‘‘ کے بارے میں تو بعد میں کچھ عرض کیا جائے گا‘ پہلے ہم اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتائے زکو ٰۃ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں.

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ایک انسان کو جب اس کے نصب العین یا ہدف (target) کا شعور حاصل ہو جائے اور اس کی منزل متعین ہو جائے کہ اسے کہاں پہنچنا ہے تو وہ یکدم ایک ہی جست میں اس ہدف تک نہیں پہنچ سکتا‘ بلکہ سب سے پہلے اسے اپنے سفر کا نقطہ ٔ آغاز متعین کرنا ہو گا اور پھر منزل بہ منزل اپنے منتہائے مقصود تک پہنچنا ہو گا. چنانچہ فَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ کے الفاظ میں اس جدوجہد کا نقطہ آغاز بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ’’شہادت علی الناس‘‘ کے ہدف تک پہنچنے کے لیے سفر کا آغاز اقامت ِصلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ سے ہو گا. یہ گویا اس ہدف کے ناگزیر لوازم (pre-requisites) ہیں. وہ شخص بڑا ہی نادان ہے جو شہادتِ حق اور اس سے بھی بڑھ کر اقامت ِدین کے مراحل میں ایک زوردار چھلانگ لگا کر پہنچنا چاہے‘ جب کہ اسے نہ اقامت صلوٰۃ کی کوئی فکر ہو اور نہ ادائے زکو ٰۃ کی‘ نہ تو اس کی نماز ہی درست ہو اور نہ ہی اسے زکو ٰۃ کے احکام تک معلوم ہوں.

ہماری بہت سی نادانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فی زمانہٖ جن لوگوں کو اللہ نے اپنے دین کا کچھ فہم عطا فرمایا ہے اور جن کو یہ شعور حاصل ہو گیا ہے کہ اسلام محض چند مراسم عبودیت ہی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے‘ ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ دین میں کام کی جو تدریج ہے وہ ان لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور یہ لوگ جوشِ عمل میں اگلی منزل پر چھلانگ لگانے کی سعی ٔ لا حاصل میں لگ جاتے ہیں‘ جس کا نتیجہ چاروں شانے چت گرنے کے سوا کچھ نہیں نکلتا. قرآن حکیم سے ہمیں یہ راہنمائی حاصل ہو رہی ہے کہ شہادت علی الناس کی منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے پہلے اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ جیسے فرائض سے تمسک ضروری ہے‘ اس کے بغیر نہ سیرت کی تعمیر ہو گی اور نہ دعوت و تبلیغ کا حق ادا ہو گا. شریعت ِحقہ میں شخصیت اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جو دائرے مقرر کر دیے گئے ہیں‘ ان کا لحاظ کیے بغیر آخری دائرے میں جست لگا دینا مفید مطلب نہیں‘ بلکہ مضر ثابت ہوتا ہے‘ کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے.

نظامِ باطل کے خاتمے اور اسلام کے نظامِ عدل و قسط کے قیام کے لیے شاندار جلسے جلوس اور منظم مظاہرے صرف اسی وقت مفید ثابت ہو سکتے ہیں جب کہ ان میں حصہ لینے والے فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ پر عامل ہوں. اس کے بغیر یہ جلسے جلوس‘ فلک شگاف نعرے اور مظاہرے گھاٹے کے سودے ہیں اور ان کی حیثیت فریبِ نفس سے زیادہ نہیں‘ بلکہ اندیشہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں زبردست گرفت اور محاسبے کا باعث بن جائیں.

اسی طرح جو لوگ بس نماز ہی کو پورا دین سمجھ بیٹھیں‘ روزوں کی پابندی‘ حج کی ادائیگی اور کچھ اَور اد و وظائف پر مطمئن ہو کر بیٹھ رہیں‘ جبکہ ان کی زندگی کے دوسرے معاملات اللہ کی اطاعت سے خالی ہوں‘ نہ دین کی مغلوبیت ان میں کوئی غیرت و حمیت پیدا کرے اور نہ جہاد و قتال کی منازل ان کے سامنے ہوں ‘تو جان لیجیے کہ وہ بھی سخت مغالطے میں ہیں‘ کیونکہ ان کا تصورِ دین محدود ہی نہیں مسخ شدہ بھی ہے.