فریضۂ شہادت علی الناس اور صحابہ کرامؓ کا کردار

اس فریضۂ شہادت علی الناس کی انجام دہی میں حضور کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے جو مصائب و شدائد جھیلے‘ جو ایثار و قربانی پیش کی اور جو محنتیں اور مشقتیں برداشت کیں وہ تاریخ انسانی کا ایک درخشاں باب ہے. تاریخ عالم ان کے صبر و مصابرت اور عزیمت و استقامت کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور قیامت تک عاجز رہے گی. نبی اکرم کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ نے خلافت ِراشدہ کی صورت میں اسلام کا جو نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کیا وہ انسانیت کی معراج ہے. اگرچہ وہ نظامِ خیر و صلاح و فلاح اِس وقت اپنی حقیقی شکل و صورت میں دنیا میں عملاً کہیں موجود نہیں ہے‘ لیکن میں بلا خوفِ تردید عرض کرتا ہوں کہ آج بھی دنیا میں جو خیر‘ بھلائی اور خوبی کہیں نظر آتی ہے اور جو انسانی اقدار موجود ہیں یا قیامت تک موجود رہیں گی وہ اسی صالح نظام کی برکات ہیں.

اسی نظام نے انسان کو اس کے حقوق و فرائض کا شعور بخشا‘ اسی نظام کی بدولت رنگ و نسل اور زبان و وطن کے امتیازات ختم ہوئے‘ اسی نظام نے خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دیا اور ان کے حقوق دلوائے. یہی وجہ ہے کہ ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ‘‘ کے مصداق دشمن بھی اس نظامِ عدل و قسط کی برکات کے معترف نظر آتے ہیں. چنانچہ آنجہانی گاندھی نے ۱۹۳۷ء میں وزارتوں کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ اپنی حکومت کے لیے صدیق اکبررضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت کو بطور نمونہ سامنے رکھا جائے.

دورِ نبوی اور دورِ خلافت راشدہ میں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کے قیام کی صورت میں حق کی عملی شہادت سینۂ گیتی پر قائم کر دی گئی جو انسانیت کے لیے تاقیامِ قیامت مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے. اب اُمت کو قولی شہادت کے ساتھ ساتھ یہی عملی شہادت دنیا کے سامنے پھر پیش کرنا ہے‘ اس لیے کہ عملی شہادت قائم کیے بغیر شہادت علی الناس کا فریضہ ادا نہیں کیا جا سکتا. چونکہ دنیا پہلے عمل کو دیکھتی ہے ‘لہذا نبوی منہاج پر استوار نظام کی اقامت اُمت پر فرض ہے. اب اگر اُمت اس فرض سے بحسن و خوبی عہدہ برآ نہیں ہوتی تو وہ لازماً خدا کے ہاں مسئول ہو گی‘ ازروئے فرمانِ خداوندی: فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ (الاعراف)

’’ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی!‘‘