شہادت علی الناس کے اس فریضے کی ادائیگی کے ضمن میں اب ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آج ہمارا کیا حال ہے؟ کیا ہم اس فرض کی انجام دہی کا کوئی احساس رکھتے ہیں؟ کیا ہمیں بحیثیت ِاُمت یہ شعور حاصل ہے کہ ہمارے کاندھوں پر کس قدر عظیم ذمہ داری کا بار ہے؟ کیا ہمیں بنی نوعِ انسانی پر اتمامِ حجت کے لیے قولی و عملی شہادت کی کوئی فکر ہے؟ اور اس سے بڑھ کر غور طلب بات یہ کہ دوسروں پر حق کی شہادت قائم کرنے سے پہلے کیا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی ایک گوشے سے بھی اس حق کی کوئی عملی شہادت دی جا رہی ہے؟ یہ بڑی ہی دردناک‘ المناک اور تلخ حقیقت ہے کہ ہماری موجودہ حیثیت خزانے کے سانپ کی سی ہے کہ ہم نہ تو خود اس دولت ِربانی سے مستفیض ہو رہے ہیں اور نہ دوسروں کو اس کا موقع دے رہے ہیں. ظاہر ہے کہ ہم اپنے سوءِ عمل اور پستی ٔ کردار کی وجہ سے دنیا میں ذلت و مسکنت کی جو حسرت انگیز اور عبرت آموز تصویر بنے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر اسلام کی حقانیت پر کوئی ایمان لائے تو کیسے لائے؟ یہ بڑی ہی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہم شہادتِ حق کا فریضہ سرانجام دینے کے بجائے کتمانِ حق کے مجرم بنے ہوئے ہیں. اس جرم کی پاداش میں بنی اسرائیل کو‘ جو ہم سے پہلے ’’امت ِ مسلمہ‘‘ کے مقام پر فائز تھے‘ ذلت و مسکنت کے عذاب سے دوچار کیا گیا تھا اور اُن پر اللہ کا غضب نازل ہوا تھا. آج یہی سزا ہمیں مل رہی ہے اور ہم پر تنبیہات کے کوڑے مختلف عذابوں کی شکل میں برس رہے ہیں‘ لیکن حیف کہ ہماری نگاہوں سے غفلت کے پردے نہیں چھٹ رہے اور ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں.

یہ ایک فطری قانون ہے جس سے ہمیں اپنی روز ِمرہ زندگی میں واسطہ پڑتا رہتا ہے‘ کہ کوئی چیز جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہو وہ اگر اس مقصد کو پورا نہ کرے تو اسے اٹھا کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے‘ ایسی چیزوں کو سنبھال کر نہیں رکھا جاتا. مثال کے طور پر قلم لکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے‘ لیکن جب آپ کا قلم لکھنا بند کر دے اور اس سے اس کا اصل مقصد ہی حاصل نہ ہو رہا ہو تو آپ یقینا اسے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیں گے. اُمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے. اُمت ِمسلمہ کی تأسیس دُنیا میں اس مقصد کے لیے کی جاتی ہے کہ وہ عبادتِ ربّ کا رویہ اختیار کرے اور شہادتِ حق کا فریضہ انجام دے. اب اگر اُمت ِمسلمہ اپنے مقصد ِوجود اور غرضِ تأسیس ہی کو پورا نہ کرے تو اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی‘ وہ راندۂ درگاہ بن جاتی ہے‘ وہ مردودِ بارگاہ خداوندی ہو جاتی ہے‘ اسے دھتکار دیا جاتا ہے اور اس پر خدا کی لعنت اور پھٹکار پڑتی ہے. اس کی نمایاں ترین مثال یہود ہیں‘ جن کے بارے میں فرمایا گیا: وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۶۱’’اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے.‘‘

یہودکو اللہ تعالیٰ کے اسی ضابطے کے تحت اس قدر اہانت آمیز سزا ملی‘ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیارے تھے. قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کی طرف سے جتنا لاڈپیار اس اُمت کے ساتھ ہوا وہ کسی دوسری اُمت کے ساتھ نہیں ہوا. اللہ نے ان کے لیے صحرا میں بادلوں کا سائبان فراہم فرمایا‘ ایک چٹان سے بارہ چشمے جاری فرما دیے‘ آسمان سے من و سلویٰ نازل فرمایا‘ فرعون جیسے جابر بادشاہ سے اس معجزانہ شان کے ساتھ گلوخلاصی کرائی کہ عصائے موسوی کی ضرب سے سمندر نے ان کو راستہ دے دیا اور پانی چٹانوں کی طرح اطراف میں کھڑا ہو گیا. اللہ تعالیٰ کے انہی احسانات و انعامات کی بناء پر ان کو یہ غرا پیدا ہو گیا تھا کہ نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ (المائدۃ:۱۸’’ ہم تو اللہ کے بیٹے (یعنی بیٹوں کی مانند) اور اس کے بڑے چہیتے ہیں!‘‘یہ وہ قوم تھی کہ جس میں سینکڑوں نبی تشریف لائے اور بیک وقت کئی کئی نبی موجود رہے (مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو ساتھ ہارون علیہ السلام کو بھی مبعوث فرمایا گیا‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی حیثیت سلسلۂ بنی اسرائیل کے خاتم النبیین کی ہے‘ ان کی نبوت کے وقت حضرت یحیی علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام موجود تھے.) جس قوم میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام جیسے جلیل القدر نبی اور عظیم الشان بادشاہ گزرے‘ جس قوم کو مسلسل نبوت عطا کی گئی‘ جس قوم کے لیے شریعت نازل کی گئی اور کئی کتابیں اتاری گئیں‘ جنہیں تورات کے بعد کتنے ہی صحیفے دیے گئے‘ زبور جیسی کتاب عطا کی گئی اور جن کے لیے انجیل جیسی پُرحکمت کتاب نازل کی گئی لیکن دیکھ لیجیے کہ اس سب کے باوجود انہیں اللہ کی نافرمانی کی کیسی کڑی سزا دی گئی.

بدقسمتی سے آج یہی مغالطہ ہمیں لاحق ہے کہ ہم امت ِمرحومہ میں شامل ہیں‘ اللہ کے محبوب نبی کے محبوب اُ متی ہیں. لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ خدا کے ساتھ اگر ہمارا کوئی رشتہ ہے تو اس مقصد کے واسطے سے ہے جس کے تحت ہمیں اُمت ِوسط اور خیر اُمت کے خطابات سے نوازا گیا ہے. ان خطابات سے عُجب پیدا نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ یہ بہت بڑی ذمہ داریوں کے متقاضی ہیں. اگر ہم ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کریں گے اور اپنے مقصد ِوجود کو پورا کرنے کی جدوجہد نہیں کریں گے تو ضابطہ ٔ خداوندی کے مطابق خس و خاشاک کی طرح بہا دیے جائیں گے‘ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ پورا ہو رہا ہے. جب تک ہم بحیثیت ِاُمت اپنے فرضِ منصبی کو پورا کرنے کی جہد و کوشش کرتے رہے ہم دنیا میں سربلند رہے اور دنیا نے ہماری عظمت و سطوت کا لوہا مانا اور جب سے ہم نے اپنے اس فرض کو پس ِپشت ڈالا ہم زوال پذیر ہونا شروع ہو گئے. چنانچہ ہمارے تنزل کو صدیاں بیت گئی ہیں. اندلس میں جہاں ہم نے سات سو سال سے زائد عرصے تک حکومت کی‘ ہمارا نام و نشان باقی نہیں رہا. سمرقند‘ تاشقند اور بخارا جہاں سے حدیث اور فقہ کے بڑے بڑے ائمہ اٹھے‘ آج وہ شہر منکرین ِخدا کے قبضے میں ہیں اور وہاں پر قائم بڑی بڑی مساجد اور درس گاہیں سیرگاہوں اور یادگاروں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں. ۱۹۶۷ء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مقہور و مغضوب قوم کے ہاتھوں مشرقِ وسطیٰ میں عربوں کو جس ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا وہ عذاب کا ایک کوڑا ہی تو تھا جس کے نتیجے میں ہمارا قبلۂ اوّل جو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے لے کر ۱۹۶۷ء تک ہماری تولیت میں تھا‘ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا. (اس عرصے میں قریباً ایک صدی مستثنیٰ ہے جس میں بیت المقدس عیسائیوں کی تحویل میں چلا گیا تھا) لیکن یہ سانحہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے ناکافی رہا اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک اسی طرح عیش کوشی‘ دنیاطلبی اور خدا سے بغاوت کی روش پر کمربستہ ہیں جو صدیوں سے ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے.

خود ملک خدادادِ پاکستان کا حال دیکھ لیجیے جو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا‘ لیکن اسلام سے اعراض کے نتیجے میں ہمارا جو حال ہوا ہے اسے ہم نے نگاہِ عبرت سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی. ہندوستان میں‘ جہاں ہم ایک ہزار سال تک حکمران رہے‘ ہم کس طرح پامال کیے گئے اور اب تک کیے جا رہے ہیں. ہندو کے ہاتھوں شکست اوراس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کا سقوط ہماری تاریخ کا المناک ترین باب ہے. وہاں کشت و خون کا جو بازار گرم ہوا اور بھائیوں کے ہاتھوں بھائیوں پر بہیمانہ مظالم کے جو پہاڑ توڑے گئے اور بھائیوں کی شقاوتِ قلبی کا یہ مظاہرہ کہ ان کی ہوس کے ہاتھوں بہنوں کی عصمت کے آ بگینے چکناچور ہوئے کیا یہ سب کچھ ہمارے لیے کسی درجے میں عبرت اور انذار کا باعث بنا؟ کیا ہمارے دل میں رجوع الی اللہ کی تحریک پیدا ہوئی؟ کیا توبۃًنصُوحاً کا جذبہ ہمارے دل میں ابھرا؟ کیا ہمیں اپنی حالت کو بدلنے کا احساس ہوا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے اورہمارے لیل و نہار جو پہلے تھے وہی اب بھی ہیں. اس بچے کھچے پاکستان میں جو فتنے اور عصبیتیں عفریتوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں وہ بھی ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کر سکے.

واقعہ یہ ہے کہ اِس وقت دنیا میں ذلت و رسوائی کا سب سے بڑا نشان مسلمان بن گئے ہیں. مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ ہماری پیٹھوں پر عذابِ الٰہی کے کوڑے پڑ رہے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے قانون اور ضابطے کے تحت ہو رہا ہے .اور اس صورتِ حال میں اُس وقت تک ہرگز کوئی تبدیلی واقع نہ ہو گی جب تک ہم خود اپنے رویے کو نہیں بدلیں گے. اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے کہ: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ (الرعد:۱۱’’یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو خود نہ بدلیں.‘‘ چنانچہ جب تک ہم اپنے رویے کو تبدیل نہیں کریں گے اور بحیثیت ِاُمت اپنے ان فرائض منصبی کا خیال نہیں رکھیں گے جن کے لیے ہمیں اُمت مسلمہ بنایا گیا‘ ہم اسی صورت حال سے دوچار رہیں گے. لہذا ہم میں سے ایک ایک فرد کو شعوری طور پر یہ طے کر لینا چاہیے کہ اس کا مقصدِ زندگی عبادتِ ربّ اور شہادت علی الناس کے فریضہ کی ادائیگی ہے اور یہ مقصد تمام مفادات سے بلند وبالا اور سب پر حاوی ہو گا اور سب سے مقدم رہے گا اور قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) کے مصداق اس کا جینا اور مرنا اسی مقصد کے لیے ہو گا. جب تک اُمت کے ہر فرد کی صلاحیتیں‘ توانائیاں اور تمام تر جدوجہد اس ایک نکتہ پر مرتکز نہیں ہو گی اس وقت تک یہ صورت حال نہیں بدلے گی. یہی سنت اللہ ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا: وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۶۲﴾ (الاحزاب) ’’اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے‘‘.

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات