سورۃُ الشوریٰ کی آیات ۱۳ تا ۱۵کی روشنی میں
دین کا تیسرا اہم تقاضا نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

دعوتِ بندگی ٔ ربّ اور فریضہ ٔ شہادت علی الناس کے بعد جو تیسری بڑی ذمہ داری اِس اُمت کے سپرد کی گئی ہے اس کے لیے قرآنی اصطلاح ’’اقامت ِدین‘‘ ہے‘ یعنی دین کا قیام‘ دین کا غلبہ اور دین کو بحیثیت ِ نظامِ زندگی بالفعل قائم کر دینا. اصلاً تو یہ نتیجہ ہے اسی ’’عبادتِ ربّ‘‘ کا‘ جس سے گفتگو شروع ہوئی تھی‘ یعنی عبادت کا نتیجہ ’’شہادتِ حق‘‘ یا ’’شہادت علی الناس‘‘ اور شہادتِ حق کی بلند ترین منزل ’’اقامت ِ دین‘‘ ہے‘ لیکن ان تینوں اصطلاحات کو علیحدہ علیحدہ ذہنوں میں محفوظ کرنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ فہمِ دین سے رفتہ رفتہ بُعد پیدا ہو جانے کی وجہ سے مجرد لفظ ’’عبادت‘‘ سے ذہن ان دوسری دو ذمہ داریوں تک نہیں پہنچتاجو حقیقت میں لازم و ملزوم ہیں. لہذا جب تک اس کے مضمرات کو کھول کر بیان نہ کردیا جائے کہ اس بیج میں یہ پورا درخت پنہاں ہے‘ اس وقت تک ذہن اسی محدود تصورِ عبادت کی گرفت میں رہتا ہے کہ عبادتِ ربّ کا مقصد محض نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ ہے. اس محدود تصور سے رستگاری کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں اصطلاحات کو ملحوظ رکھا جائے جو درحقیقت ایک ہی نکتۂ ایمان کی تفسیریں ہیں! لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ ’’مطالباتِ دین‘‘ کے ضمن میں ان تین اصطلاحات کو ذہن نشین کر لیں کہ یہ تینوں چیزیں فرائض ِدینی میں شامل ہیں اور فلاحِ دُنیوی و نجاتِ اُخروی کے لیے ناگزیر ہیں.

اقامت ِ دین کی گفتگو اصلاً تو ہمارے منتخب نصاب میں سورۃ الصف کے درس کے ضمن میں آتی ہے‘ جس کا مرکزی مضمون یہی ہے کہ محمد رسول اللہ کی بعثت کا تکمیلی مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت و رہنمائی اور دین حق یعنی ضابطہ ٔ حیات دے کر آپ بھیجے گئے تھے اسے آپ پوری زندگی کے نظامِ اطاعت پر غالب کر دیں. چنانچہ وہاں فرمایا گیا: ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (الصف:۹’’ وہی ہے اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے( یعنی کتاب اور نظامِ شریعت دونوں دے کر) تاکہ آپ اس (ہدایت اور دینِ حق) کو ہر جنس دین پر غالب کر دیں!‘‘