اب قابل غور بات یہ ہے کہ کیا قرآن کا نزول محض تلاوت کے لیے ہوا ہے؟ یا صرف زبانی تعریف و توصیف (lip service) کے لیے آیا ہے؟ یا محض ایصالِ ثواب کے لیے اُتارا گیا ہے؟ نہیں‘بلکہ قرآن تو نبی اکرم پر اس لیے نازل کیاگیا تھاتاکہ اس کے مطابق نظامِ زندگی بالفعل قائم ہو اور دُنیا کے سامنے اللہ کے دین کا جامع اور کامل نمونہ آ جائے. ازروئے قرآن حکیم نبی اکرم کی بعثت کا مقصد یہی تھا.چنانچہ رسول اللہ کی پوری حیاتِ طیبہ اسی جدوجہد سے عبارت ہے‘ اور اسی کے لیے محنتیں کرنے‘مشقتیں جھیلنے‘ جانیں کھپانے‘ قربانیاں دینے‘ مال خرچ کرنے‘ غرضیکہ اس راہ میں اپنے جسم و جان کی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں لگانے کا مطالبہ ان لوگوں سے بھی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں. لہذا سورۃ الصف میں محمد رسول اللہ کا مقصد ِبعثت بیان کرنے کے بعد فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ (الصّف)
’’اے ایمان والو! کیا میں تم کو اس تجارت کے بارے میں بتاؤں جو تم کو عذابِ الیم سے چھٹکارا دلا دے؟ (وہ یہ کہ) اللہ اور اس کے رسول پر پختہ یقین رکھو اور (اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے) اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد (اور مجاہدہ کی روش اختیار) کرو. (اس کے لیے اپنی صلاحیتیں‘ توانائیاں‘ جانیں‘ مال و منال اور اپنے اوقات اللہ کی راہ میں کھپاؤ) یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو!‘‘

آج کی نشست میں اسی مضمون کی وضاحت کے لیے ہم سورۃ الشوریٰ کی آیات ۱۳ تا ۱۵ کا مطالعہ کریں گے. فرمایا:

شَرَعَ لَــکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی …
’’(اے مسلمانو!) اُس (اللہ) نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے از جنسِ دین وہی جس کی وصیت کی تھی اس نے نوحؑ کو‘ اور جو وحی کیا ہم نے (اے نبیؐ ) تمہاری طرف اور جس کی وصیت کی تھی ہم نے ابراہیم ؑ کو اور موسٰی ؑ کو اور عیسٰی ؑ کو…‘‘

نوٹ کیجیے کہ ’’شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ‘‘ میں جمع مخاطب کی ضمیر استعمال ہوئی ہے‘جس کا صاف مفہوم یہ ہے کہ اس آیت کی مخاطب ہر دَور اور ہر زمانے کی اُمت ِمسلمہ ہے‘ البتہ ’’وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ‘‘میں واحد مخاطب کی ضمیر رسول اللہ کے لیے ہے.