آگے بڑھنے سے پہلے لفظ ’’دین‘‘ کے معانی و مفاہیم کو اچھی طرح جان لینا اور سمجھ لینا ضروری ہے. یہ لفظ بھی ’’عبادت‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کے الفاظ کی طرح تعلیماتِ اسلامی میں بڑا اہم اور مرکزی لفظ ہے اور اس کے صحیح اور حقیقی فہم پر ہی قرآن حکیم کی دعوت کا صحیح اور درست مطلب سمجھنا منحصر ہے. عربی زبان میں اس لفظ ’’دین‘‘ کا اصل مفہوم جزا و سزا یا بدلہ ہے. چنانچہ سورۃ الفاتحہ میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے: مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾’’ (جزا و سزا ‘بدلے کے دن کا مالک!)اردو کا مشہور محاورہ ہے ’’جیسا کرو گے‘ ویسا بھرو گے!‘‘ عربی میں اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے محاورہ بولا جاتا ہے ’’کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ‘‘.

اسی جزا و سزا کے بنیادی تصور سے عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کے مفاہیم میں انتہائی وسعت پیدا ہوتی ہے اور غور کرنے سے یہ تمام مفاہیم اور وسعتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں. ظاہر بات ہے کہ جزا و سزا کسی ضابطے اور قانون کے تحت ہی ہوتی ہے. یعنی ضابطے اور قانون کی پابندی اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے پر انسان جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی اور نافرمانی سے سزا کا مستوجب قرار پاتا ہے. لہذا اسی لفظ ’’دین‘‘ میں جزا و سزا اور بدلے کے ساتھ ساتھ قانون اور ضابطے کا تصور بھی پیدا ہوتا ہے. اب قانون اور ضابطے کے تصور کے مقتضیات و لوازم میں کسی مقنن اور کسی مطاع کا تصور بھی شامل ہے. یعنی ایسی ہستی کا تصور جو قانون عطا کرنے والی (Law Giver) ہو. اب مزید آگے بڑھیے. جزا و سزا‘ قانون و ضابطہ اور مقنن و مطاع کے تصورات و مقتضیات میں اطاعت کا تصور ایک ناگزیر لازمہ کی حیثیت سے شامل ہے.

قرآن مجید کی مخصوص اصطلاح ’’دین‘‘ ان تمام تصورات کے اجتماع سے بنی ہے اور ازروئے قرآن اس کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ: ’’ایک پورا نظامِ زندگی اور مکمل ضابطۂ حیات جس میں ایک ہستی یا ادارے کومطاع‘ مقنن (Law Giver) اور حاکم مطلق (Sovereign) مان کراس کی جزا کی امید اور سزا کے خوف سے اس کے عطاکردہ قانون اور ضابطے کے مطابق اس ہستی (یا ادارے) کی کامل اطاعت کرتے ہوئے زندگی بسر کی‘جائے!‘‘

دین کے اس تصور کو اس کی تمام تر کلیت کے ساتھ سامنے رکھئے. قرآن مجید سے ہمیں لفظ ’’دین‘‘ کا یہی جامع تصور ملتا ہے. اس کے لیے اب میں قرآن مجید ہی سے استشہاد کرتا ہوں.