اس وضاحت کو سامنے رکھ کر اب آخری پارے کی مختصر سی سورت ’’سورۃالنصر‘‘ کو اپنے سامنے لایئے :

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲
’’جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہو گئی‘ اور (اے نبیؐ ) آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں.‘‘

اس مقام پر جو ’’دین اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دین اللہ کیا ہے؟ دین اللہ یہ ہے کہ صرف اللہ کو مطاع و حاکم مطلق اور مقنن حقیقی تسلیم کر کے اُسی کی جزا کی اُمید رکھتے ہوئے اور اُسی کی سزا سے خوف کھاتے ہوئے‘ صرف اُسی کے قانون‘ اُسی کے ضابطے اور اُسی کی عطاکردہ شریعت کے مطابق اپنے انفرادی و اجتماعی معاملات کو سرانجام دیا جائے. بالفاظِ دیگر اپنی پوری زندگی میں صرف اورصرف اسی کی کامل اطاعت کو لازم کر لیا جائے. اسی رویے اور طرزِعمل کا نام ہے اللہ کے دین کے تحت زندگی گزارنا‘اور قرآن مجید میں اسی کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸’’اے اہل ایمان! (اللہ کی) اطاعت میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ!‘‘