’’دین الملک‘‘ اور ’’دین اللہ‘‘ جیسی قرآنی اصطلاحات کے بعد اب ’’دین جمہور‘‘ کی اصطلاح پر غور کیجیے. موجودہ دَور میں جب مذہب کو انسانی زندگی کا محض ایک نجی معاملہ بنا دیا گیا تو دین کے جامع تصور یعنی اس کے نظامِ حیات ہونے کے تصور کی جگہ خالی ہو گئی. اس خلا کو پر کرنے کے لیے آپ سے آپ دنیا میں اس تصور اور نظریے نے رواج پا کر قبولِ عام حاصل کر لیا کہ زندگی کے اجتماعی معاملات‘ اصول و ضوابط اور معاشرتی نظام ’’جمہور‘‘ خود اپنی رائے‘ اپنی مرضی‘ اپنی پسند و ناپسند اور اپنے تجربات و مشاہدات کے اعتبار سے طے کریں گے. جمہور یا ان کے نمائندے یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں گے کہ کیا جائز ہے اورکیا ناجائز‘ کیا صحیح ہے اور کیا غلط! ان کے لیے کسی آسمانی شریعت یا ہدایت کی ضرورت نہیں ہے. پارلیمان کی اکاون فیصد اکثریت کو ہر بات کے فیصلے کا اختیارِ مطلق حاصل ہے. اسے حق حاصل ہے کہ دو مَردوں کی شادی کے جواز کا قانون پاس کر دے‘ جیسا کہ فی الواقع برطانوی پارلیمان نے کیا.

وہ چاہے تو سڑکوں پر‘ پارکوں‘ کلبوں اور بازاروں میں‘ فلموں اور ڈراموں میں اور اسٹیج پر عریانی‘ مادر زاد برہنگی‘ حتیٰ کہ جنسی فعل تک کو جائز قرار دے دے‘ جیسا کہ بعض یورپی ممالک اور امریکی ریاستوں میں اس فحاشی پر کوئی قدغن نہیں ہے‘ بلکہ اس شیطانی عمل کو قانون کا تحفظ حاصل ہے. اسی طرح پارلیمان چاہے تو قمار بازی‘ سٹہ‘ لاٹری اوراسی قبیل کے منکرات کو تفریح کا مقام دے کر انہیں قانونی طور پر جائز قرار دے دے‘ جیسا کہ فی الواقع دنیا کے اکثر ممالک نے کر رکھا ہے.

شراب نوشی‘ جنسی بے راہ روی‘ زنا‘ عملِ قومِ لوط‘ عریانی‘ قمار بازی‘ غرضیکہ کوئی شیطانی عمل ایسا نہیں کہ جس کو سند ِجواز دینے کے لیے جمہور کے نمائندوں کی اکاون فیصد اکثریت مجاز نہ ہو. قانون سازی اور حدود و تعزیرات کی تعیین کسی اخلاقی قدر اور آسمانی ہدایت کی پابند نہیں‘ بلکہ اس کے لیے معیار جمہور کی پسند اور ناپسند ہے. انہیں اس میں ردّ و بدل اور ترمیم و تنسیخ کا بھی پورا حق حاصل ہے. اس طرزِفکر اور نظریے کے لیے ایک اصطلاح ’’سیکولرازم‘‘ یعنی لادینی نظامِ حیات وضع ہوئی اور آج اسی فکر کا ساری دنیا میں غلبہ ہے. یہاں تک کہ ہم پاکستانی بھی‘ جنہوں نے نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے تحریکِ پاکستان چلائی تھی اور پاکستان قائم کیا تھا‘ اپنی روح کے اعتبار سے اسی نظامِ حیات کو اپنائے ہوئے ہیں. عملی طور پر چاہے ہم ابھی اس طرزِفکر کی پوری نقالی نہ کر رہے ہوں‘ لیکن فکری طور پر اسی نظریے کا ہم پر کامل غلبہ و استیلاء ہے. حقیقت یہ ہے کہ خدا کی ہدایت اور شریعت سے آزاد یہ ’’جمہوریت‘‘ نہ صرف ایک لعنت ہے‘ بلکہ خدا سے بغاوت ہے‘ سراسر معصیت ہے‘ طغیان اور سرکشی ہے اور فکر سے لے کر عمل تک بالکلیہ کفر و شرک ہے.

اس بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ جو دین اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام پر نازل کیا تھا اور جو خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمد  پر تکمیل پذیر ہوا‘ اس کے نزول کا مقصد اس دین اللہ کا بالفعل قیام ہے. یعنی اللہ کا دین بالفعل قائم ہو اور تمام معاملات اس کے مطابق طے ہوں‘ تمام امور کا تصفیہ اسی کی روشنی میں کیا جائے. کسی شے کو حلال یا حرام اور جائز یا ناجائزقراردینے کا مختار و مجاز صرف اور صرف اللہ کو تسلیم کیا جائے اور اس سے سرمو انحراف نہ کیاجائے.