اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ (آل عمران:۱۹)
’’یقینا دین تو اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے!‘‘
دین اور شریعت کے فرق کو آپ دورِجدید کی دو اصطلاحوں کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں. کسی بھی ملک کا ایک تو ’’اساسی دستور‘‘ ہوتا ہے‘ جس میں یہ متعین ہوتا ہے کہ حاکم کون ہے‘ حاکمیت(sovereignty) کس کی ہے اور وہ حاکمیت کس طرح استعمال (channelize) ہو گی‘ حاکمیت کے تحت قانون بنانے کا طریقہ (process) کیا ہو گا‘ وہ حاکمیت کیسے روبہ عمل (exercise) ہو گی‘ قوانین میں ردّ و بدل کیسے ہو گا‘ ملکی انتظام کیسے چلے گا‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے مختلف شعبوں کا باہمی ربط کیا ہو گا‘ اور ایک دوسرے کے لیے احتساب و محاسبہ اور ان میں باہمی توازن (check and balance) کا نظام کیا ہو گا؟ اساسی دستور ان تمام مسائل پر محیط ہوتا ہے. کسی بھی ملک کا دستور بناتے ہوئے اس امر کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی اساسی دفعات بہت پائیدار اور مستحکم ہوں. چونکہ ان میں بار بار کی تبدیلی مناسب نہیں ہوتی اس لیے اس میں تبدیلی کے طریقِ کار کو بڑا ہی مشکل رکھا جاتا ہے. لیکن اس اساسی دستور کے تحت جو قوانین بنتے رہتے ہیں ان کا معاملہ دوسرا ہے. تعزیرات علیحدہ لکھی جاتی اور طے کی جاتی ہیں‘ دیوانی اور فوجداری قوانین علیحدہ مدوّن کیے جاتے ہیں اور ان میں ملکی دستور کے تحت حسبِ ضرورت آسانی سے ردّ و بدل کیا جا سکتا ہے.
ہمارے ملک میں تو (ordinence)آرڈیننس کے ذریعے سے بھی قوانین میں ردّ و بدل ہو جاتا ہے‘ لیکن جمہوری ممالک میں تو بہرحال یہ اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے کہ وہ ۴۹ اور ۵۱ کے فرق سے قانون بنا بھی سکتی ہیں اور اس میں ردو بدل بھی کر سکتی ہے. تو اس کو یوں سمجھئے کہ ہمارے دین کے نظام میں دستور کی جگہ تو ’’دین‘‘ کی اصطلاح ہے اور قانون کی جگہ ’’شریعت‘‘ کی اصطلاح ہے. دین اصل میں اس سے بحث کرتا ہے کہ مطاع کون ہے‘ حاکم کون ہے‘ حاکمیت کس کی ہے‘ قانون کس کا چلے گا‘ مرضی کس کی چلے گی اور وہ حاکمیت کس طرح روبہ عمل آئے گی؟ یعنی یہ کس کے واسطے سے ہو گی‘ حاکم مطلق کے نمائندے کی حیثیت کسے حاصل ہو گی؟ یہ تمام امور ہمیشہ سے طے شدہ ہیں اور ان میں کبھی کوئی فرق نہیں رہا کہ مطاعِ مطلق اور حاکمِ مطلق صرف اللہ ہے جو ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ‘‘ کی شان کا حامل ہے. اس کی طرف سے ملنے والا ہر قانون واجب العمل ہے اور اسے لے کر آنے والے نمائندے اس کے رسول ہیں. اس کے قانون کی جو تعبیر (interpretation) اس کا نمائندہ (یعنی رسول) کرے تو اسے قبول کرنا اور اس کی روشنی میں اپنے معاملات طے کرنا لازمی ہے. جن معاملات میں قرآن و حدیث کی کوئی نصِ قطعی موجود نہ ہو انہیں دین کی روح کے تحت باہمی مشاورت سے طے کیا جا سکتا ہے‘ لیکن جو حدود و قیود اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کر دی گئی ہیں ان سے سرِمو ہٹنے یا اس میں رد ّو بدل کی اجازت نہیں ہے. یہ ہے آیت کے اس حصے کی شرح کہ :
شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَــآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی.....