دین اور شریعت کا فرق

اس موقع پر ایک اشکال آپ سے آپ ذہن میں آتا ہے کہ جہاں تک شریعت کا تعلق ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت اور تھی اور حضرت محمد کی شریعت اور ہے. ان دونوں شریعتوں کا فرق تو ہمیں معلوم ہے‘ اس لیے کہ تورات منحرف صورت میں ہی سہی‘ موجود ہے اور قرآن مجید اور سنت ِرسول بھی بتمام و کمال محفوظ ہے. البتہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے صحیفے اور ان کی شریعتیں موجود نہیں ہیں. لہذا شریعت محمدی اور شریعت موسوی علیہ السلام کے مابین فرق آج بھی تیقن کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے. مثلاً نمازوں کی تعداد‘ اوقات اور روزہ کے احکام میں فرق بہت واضح ہے. پس معلوم ہوا کہ جو چیز مشترک ہے وہ کوئی اور چیز ہے اور جس میں باہمی فرق ہے وہ مختلف چیز ہے. ان دونوں کے لیے دو مختلف اصطلاحات ہیں. چنانچہ ایک کا نام ’’دین‘‘ اور دوسری کا نام ’’شریعت‘‘ ہے.

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد  تک تمام انبیاء و رُسل کا دین ایک ہی رہا ہے. اس میں کسی دَور میں بھی قطعا کوئی فرق واقع نہیں ہوا. دین یہ ہے کہ عقیدۂ توحید کے مقتضیات کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے‘ اس کے بھیجے ہوئے انبیاء و رُسل اور اس کی اتاری ہوئی کتابوں کی تصدیق کی جائے‘ ملائکہ‘ بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب و کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ پر پختہ یقین رکھا جائے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاکمِ مطلق اور مقننِ حقیقی تسلیم کیا جائے. جب کہ شریعت عملی زندگی کے احکام پر مشتمل ہوتی ہے. چنانچہ حالات کے بدلنے‘ انسانی ذہن کے ارتقاء اور تہذیب و تمدن اور وسائل و ذرائع کی ترقی کے ساتھ ساتھ احکامِ شریعت میں تغیر و تبدل ہوتا رہا‘ تاآنکہ شریعت محمد  پر پایۂ تکمیل کو پہنچی. لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے اور وہ  ’’اسلام‘‘ ہے ازروئے الفاظ قرآنی: 

اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ (آل عمران:۱۹)
’’یقینا دین تو اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے!‘‘

دین اور شریعت کے فرق کو آپ دورِجدید کی دو اصطلاحوں کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں. کسی بھی ملک کا ایک تو ’’اساسی دستور‘‘ ہوتا ہے‘ جس میں یہ متعین ہوتا ہے کہ حاکم کون ہے‘ حاکمیت(sovereignty) کس کی ہے اور وہ حاکمیت کس طرح استعمال (channelize) ہو گی‘ حاکمیت کے تحت قانون بنانے کا طریقہ (process) کیا ہو گا‘ وہ حاکمیت کیسے روبہ عمل (exercise) ہو گی‘ قوانین میں ردّ و بدل کیسے ہو گا‘ ملکی انتظام کیسے چلے گا‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے مختلف شعبوں کا باہمی ربط کیا ہو گا‘ اور ایک دوسرے کے لیے احتساب و محاسبہ اور ان میں باہمی توازن (check and balance) کا نظام کیا ہو گا؟ اساسی دستور ان تمام مسائل پر محیط ہوتا ہے. کسی بھی ملک کا دستور بناتے ہوئے اس امر کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی اساسی دفعات بہت پائیدار اور مستحکم ہوں. چونکہ ان میں بار بار کی تبدیلی مناسب نہیں ہوتی اس لیے اس میں تبدیلی کے طریقِ کار کو بڑا ہی مشکل رکھا جاتا ہے. لیکن اس اساسی دستور کے تحت جو قوانین بنتے رہتے ہیں ان کا معاملہ دوسرا ہے. تعزیرات علیحدہ لکھی جاتی اور طے کی جاتی ہیں‘ دیوانی اور فوجداری قوانین علیحدہ مدوّن کیے جاتے ہیں اور ان میں ملکی دستور کے تحت حسبِ ضرورت آسانی سے ردّ و بدل کیا جا سکتا ہے.

ہمارے ملک میں تو (ordinence)آرڈیننس کے ذریعے سے بھی قوانین میں ردّ و بدل ہو جاتا ہے‘ لیکن جمہوری ممالک میں تو بہرحال یہ اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے کہ وہ ۴۹ اور ۵۱ کے فرق سے قانون بنا بھی سکتی ہیں اور اس میں ردو بدل بھی کر سکتی ہے. تو اس کو یوں سمجھئے کہ ہمارے دین کے نظام میں دستور کی جگہ تو ’’دین‘‘ کی اصطلاح ہے اور قانون کی جگہ ’’شریعت‘‘ کی اصطلاح ہے. دین اصل میں اس سے بحث کرتا ہے کہ مطاع کون ہے‘ حاکم کون ہے‘ حاکمیت کس کی ہے‘ قانون کس کا چلے گا‘ مرضی کس کی چلے گی اور وہ حاکمیت کس طرح روبہ عمل آئے گی؟ یعنی یہ کس کے واسطے سے ہو گی‘ حاکم مطلق کے نمائندے کی حیثیت کسے حاصل ہو گی؟ یہ تمام امور ہمیشہ سے طے شدہ ہیں اور ان میں کبھی کوئی فرق نہیں رہا کہ مطاعِ مطلق اور حاکمِ مطلق صرف اللہ ہے جو ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ‘‘ کی شان کا حامل ہے. اس کی طرف سے ملنے والا ہر قانون واجب العمل ہے اور اسے لے کر آنے والے نمائندے اس کے رسول ہیں. اس کے قانون کی جو تعبیر (interpretation) اس کا نمائندہ (یعنی رسول) کرے تو اسے قبول کرنا اور اس کی روشنی میں اپنے معاملات طے کرنا لازمی ہے. جن معاملات میں قرآن و حدیث کی کوئی نصِ قطعی موجود نہ ہو انہیں دین کی روح کے تحت باہمی مشاورت سے طے کیا جا سکتا ہے‘ لیکن جو حدود و قیود اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کر دی گئی ہیں ان سے سرِمو ہٹنے یا اس میں رد ّو بدل کی اجازت نہیں ہے. یہ ہے آیت کے اس حصے کی شرح کہ :

شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَــآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی.....