آیت کے اگلے ٹکڑے میں اب وہ اصطلاح وارد ہو رہی ہے جو ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ہے. فرمایا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں کس لیے دیا گیا ہے؟ کیا اس لیے کہ تم اللہ کی عطاکردہ کتابِ دستور کو محض حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کا ذریعہ بنا لو؟ اس کا احترام بس اس طرح سے کر لو کہ اسے ریشمی جزدان میں لپیٹ کر رکھ لو اور ہاتھ سے گر جائے تو اس کے برابر اناج تول کر دے دو؟ کہیں کوئی تقریب ہو‘ چاہے وہ کسی سینما‘ کلب‘ بار‘ ناچ گھر یا ریس کورس کی افتتاحی تقریب ہو‘ تو اس کی تلاوت کر لو؟ معاذ اللہ‘ ایسا ہرگز نہیں! بلکہ یہ دین تو محض اس لیے دیا گیا ہے کہ:

اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ؕ
’’یہ کہ اس دین کو قائم کرو اور اس باب میں تفرقہ کا شکار نہ ہو جاؤ!‘‘

یہ دین اپنا نفاذ اور غلبہ چاہتا ہے. وہ دستور اور قانون بے معنی ہے جو کہیں نافذ نہیں. ہمارے ملک کے ۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۶ء کے جو دستور رکھے ہوئے ہیں کیا وہ واقعی دستور کہلائے جا سکتے ہیں جب کہ وہ نافذ ہی نہیں؟ یہ تو بس ہماری تاریخ کی یادگار بن کر رہ گئے ہیں. کوئی دستور صحیح معنوں میں اسی وقت دستور کہلا سکتا ہے جب کہ وہ نافذ بھی ہو. قانون اسی کو کہا جائے گا جس کے مطابق عدالتوں میں فیصلے ہو رہے ہوں.