یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کے نام سے جو قوم بس رہی ہے وہ دعویٰ تو اس بات کا کرتی ہے کہ اصل دستور اور قانون اللہ وحدہ لا شریک کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے‘ لیکن یہ عجیب شترگربگی ہے کہ ان کا عمل اس دعویٰ کے بالکل برعکس ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا عطاکردہ دستور و قانون ان کی عملی و اجتماعی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتا. ان کے ہاں قرآن و سنت کے اوامر و نواہی کی سرے سے کوئی وقعت ہی نہیں‘ لہذا کوئی فیصلہ اس کے مطابق نہیں ہو پاتا. قرآن کا استعمال بس حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کے لیے رہ گیا ہے‘ جبکہ وہ قرآن حکیم کے ضابطۂ حیات اور پوری زندگی کے لیے کامل ہدایت و رہنمائی ہونے کے دعوے دار بھی ہیں. مسلمان قوم کے اس طرزِعمل کو ایک عجوبہ ہی کہا جاسکتا ہے. سورۃ الرعد میں منکرینِ قیامت کا ایک اعتراض نقل کرتے ہوئے فرمایا گیا :

وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ (آیت ۵)
’’اور اگر تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل تو ان کی یہ بات ہے کہ آیا جب ہم مٹی (میں مل کر مٹی) ہو جائیں گے تو کیا ہمیں دوبارہ پیدا کیا جا ئے گا!‘‘

لہذا اگر دنیا کو کسی بات پر تعجب کرنا چاہیے تو وہ ہمارا یہ طرزِعمل ہے کہ ایک طرف تو ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ ہمارا دستور‘ ہمارا قانون اور ہمارا ضابطہ ٔ حیات اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور ہر جہت اور ہر لحاظ سے کامل ہے‘ چنانچہ دنیا کے تمام قوانین و دساتیر سے افضل ترین ہے. پھر ہم یہ بھی برملا کہتے ہیں کہ اسی پر عمل پیرا ہونے سے دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اور خیر و صلاح حاصل ہو سکتی ہے‘ لیکن دوسری طرف اس کامل ترین اور افضل ترین دستورِ حیات سے ہماری بے اعتنائی اور روگردانی بھی دنیا سے مخفی نہیں ہے. 

تحریکِ پاکستان کے دوران یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا دستور کیا ہو گا؟ میں ان کو بتادینا چاہتا ہوں کہ ہمارا دستور تو چودہ سو سال پہلے سے طے شدہ ہے!‘‘ لیکن عملاً جو کچھ اب تک ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے .اس سے زیادہ قابلِ تعجب بات کیا ہو گی کہ جو ملک اس اصول پر قائم ہوا تھا کہ اس کا دستور اور ضابطۂ حیات کتاب و سنت ہو گا ‘آج اس ملک میں اس دستور کی تنفیذ و نفاذ کا مرحلہ روزِ اول سے بھی بعید نظر آ رہا ہے.۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو یہ معاملہ اتنا بعید نہیں تھا جتنا آج ہے‘ حالانکہ یہاں بستے سب مسلمان ہیں. سب کے سب قرآن حکیم پر ایمان کے مدعی بھی ہیں اور اسے اپنا دستور‘ قانون اور ضابطۂ حیات بھی تسلیم کرتے ہیں. اسی قرآن میں ہمارے لیے یہ حکم موجود ہے : اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِؕ