’’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘‘ کا ترجمہ’’قائم کرنا‘‘ بھی کیا گیا ہے اور ’’قائم رکھنا‘‘ بھی. نتیجے کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے. اگر دین پہلے سے قائم اور غالب ہے تو اس کو اس حالت پر برقرارر کھنا اقامت ِدین ہے. لیکن اگر دین بالفعل قائم نہیں ہے تو اسے دنیا میں قائم اور غالب کرنے کی جدوجہد کرنا اقامت ِدین کا تقاضا ہے. بعض حضرات کے نزدیک ’’اقامت‘‘ کا معنی ’’سیدھا رکھنا‘‘ ہے‘ یعنی حکم دیا جا رہا ہے کہ اس دین میں کجی نہ کرو‘ اس کی کسی چیز کو بدلو نہیں‘ تمہیں اس میں کسی کمی بیشی اور ترمیم کا اختیار حاصل نہیں‘ یہ دین تمہیں بطور امانت دیا گیا ہے اور اس کو جوں کا توں رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے! ٹھیک ہے‘ ’’اقامت ِدین‘‘ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے‘ لیکن سیدھی سی بات ہے کہ اسے جوں کا توں رکھنا کس مقصد کے لیے ہو گا؟ اسے صرف کتابوں میں محفوظ کر لینا یا صرف آثارِ قدیمہ کے طور پر محفوظ رکھنا تو مقصود نہیں ہے. اس کو محض اپنے نسلی عقیدے کے طور پر مقدس یادگار بنا کر تو نہیں رکھنا ہے. بلکہ اگر یہ دین زندگی کے معاملات سے متعلق ہے تو اس کی حفاظت بھی اس کو قائم کرنے کے لیے مقصود ہے‘ تاکہ تمام معاملات اللہ کی مرضی کے مطابق طے پائیں. چنانچہ اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ؕ کا منشاء و مفہوم یہ ہو گا کہ دین کو قائم کرو‘ اس کی ٹھیک ٹھیک حفاظت کرو‘ اور اپنے سارے معاملات اس کے مطابق طے کرو اور اس امر میں تمہارے مابین تفرقہ نہیں ہونا چاہیے. اس میں اختلاف کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اجازت!