اس کے بعد یہ بات فرمائی گئی :
کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ ؕ
’’(اے نبیﷺ !) مشرکوں پر یہ بات بہت بھاری ہے جس کی آپﷺ انہیں دعوت دے رہے ہیں!‘‘
مکی سورتوں کے عام اسلوب کے مطابق یہاں پر خطاب اگرچہ نبی اکرم ﷺ سے ہے‘ لیکن درحقیقت ہر دَور کے مسلمان اس کے مخاطب ہیں‘ جو اس دعوت کے داعی بن کرکھڑے ہو جائیں. چنانچہ آنحضورﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے والے داعیانِ دین اور علم بردارانِ حق سب ہی اس کے مخاطب ہیں. یہاں یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ کلمۂ توحید‘ جو تمہاری دعوت کی بنیاد ہے‘ بظاہر بڑا ہی بے ضرر سا کلمہ ہے‘ لیکن اس کے جو لوازم ہیں‘ اس کے جو متضمنات و مقتضیات ہیں ان کو وہ لوگ خوب سمجھتے ہیں جو شرک پر کاربند ہیں. انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس ’’لَا اِلٰـــہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کی ضرب ان کے مفادات پر کہاں کہاں پڑے گی. ایک سادہ لوح مسلمان کے علم میں شاید یہ بات نہ ہو کہ توحید کی زد کہاں کہاں پڑ رہی ہے‘ لیکن مشرکین اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں. لہٰذا ان کے لیے یہ دعوت بہت بھاری ہے اور وہ ٹھنڈے پیٹوں یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ اللہ کا دین قائم اور غالب ہو.