اس کی ایک صورت تو یہ رہی ہے کہ کوئی انسان خود خدائی کا دعوے دار بن بیٹھے کہ مرضی میری چلے گی‘ میں نہیں جانتا کہ خدا کا کیا حکم ہے اور رسول کیا کہتا ہے‘ اقتدار کا مالک میں ہوں‘ لہذا حکم صرف میرا چلے گا! اس سیاسی شرک کا نام ملوکیت اور آمریت ہے جس پر کسی قدر گفتگو ’’دین الملک‘‘ کی بحث میں ہو چکی. اس کی بدترین مثال فرعون اور نمرودنے قائم کی. سیاسی شرک کی دوسری صورت‘ جو موجودہ دَور میں بہت عام ہے‘ یہ ہے کہ کسی ملک کے عوام اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا انکار کر دیں اور یہ کہیں کہ خدا اور رسول کو ماننا ایک نجی معاملہ ہے. جو انہیں مانتے ہیں وہ مسجدوں‘ مندروں اور کلیساؤں میں ان کا حکم چلا لیں‘ باقی رہا ملک کا قانون تو وہ عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق بنناچاہیے. اس کا نام ہے جمہوریت‘ جس پر میں ’’دینِ جمہور‘‘ کے ضمن میں کچھ روشنی ڈال چکا ہوں. یہ جمہوریت بھی اسی طرح کا بدترین شرک ہے جس طرح ملوکیت اورآمریت ہے. 

سیاسی شرک کی تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایک قوم حکومت کی مدعی بن کر دوسری قوم کو محکوم بنا لے کہ ہم تمہارے آقا ہیں‘ لہذا مرضی ہماری چلے گی. جیسے انگریز قوم نے ہمیں اپنا محکوم بنا کر ہمارے ساتھ یہ طرزِعمل روا رکھا تھا. انہوں نے بس اس قدر مذہبی آزادی دے رکھی تھی کہ ہم نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج اپنے دین کے مطابق کر لیں‘ لیکن ملکی قانون Law of the land) ان کا تھا. مرضی اور پسند تاج ِبرطانیہ کی چلتی تھی اور وائسرائے ہند اس کا نمائندہ تھا. گویا تاجِ برطانیہ ’’الٰہ‘‘ تھا اور وائسرائے اس کا’’رسول‘‘ تھا. یہ سیاسی شرک کی تیسری صورت ہے. چنانچہ سیاسی طور پر کوئی آمر‘ کوئی بادشاہ‘ یا کوئی قوم حاکمیت کے مقام پر فائز ہو جائے اور ملک کے تمام معاشی ذرائع و وسائل اور تمام قومی دولت کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق استعمال کرے تو یہ سیاسی شرک ہے.