سیاسی اور مذہبی مشرکین میں تعاون

مشرکین صرف خود ہی شرک نہیں کرتے‘ بلکہ نظامِ شرک کے استحکام کے لیے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون (joint hand) بھی کرتے ہیں. مشرکین آپس میں ایک دوسرے کے ساتھی بن جاتے ہیں اور ایک شرک دوسرے شرک کو انگیز بھی کرتا ہے‘ لیکن اہلِ شرک توحید کو کبھی برداشت نہیں کرتے. ان کا باہمی گٹھ جوڑ ہوتا ہے کہ کوئی سورج دیوتا کا مندر بنا لے‘ کوئی چاند دیوتا کا اور کوئی خود خدائی کا یا خدا کے اوتار ہونے کا دعویٰ کرے اور ’’نِصْفٌ لِّیْ وَنِصْفٌ لَّکَ‘ ھٰذَا قَوْمٌ جَاھِلُوْنَ‘‘ کے مصداق دونوں طرف سے لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹا جائے. چنانچہ بے چارے عوام الناس ایک طرف تو بادشاہ کو ٹیکس اور خراج ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف پنڈت‘ پروہت‘ پوپ‘ پجاری اور پیر صاحب ان سے اپنے نذرانے وصول کرتے ہیں‘ دونوں طرف سے تعاون اور خیرسگالی کے طور پر ایک دوسرے کی مدح بھی کی جاتی ہے‘ بادشاہ کی طرف سے ان مذہبی پیشواؤں کو خطابات سے نوازا جاتا ہے اور ان کی طرف سے بادشاہ کو خطابات و القاب دیے جاتے ہیں.

چنانچہ پوپ کی طرف سے ’’بادشاہ کے مقدس حقِ حکمرانی‘‘ (Divine right of the king) کو تسلیم کیا جاتا ہے ‘اور وہ پوپ کے تقدس کے اظہار کے لیے اسے ’’his holiness‘‘ جیسے بڑے بڑے القاب سے نوازتا ہے. پروہت اور پنڈت حکمرانوں کا سلسلۂ نسب دیوی دیوتاؤں سے قائم رکھتے ہیں اور بادشاہ سلامت اپنی اطاعت کے ساتھ ان پنڈتوں‘ پجاریوں اور پروہتوں کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں راسخ کرتے ہیں. غرضیکہ شرک کے یہ دونوں نظام باہمی گٹھ جوڑ سے ایک دوسرے کو قوت فراہم کرتے ہیں. لہذا ان میں سے کوئی بھی توحید کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا‘ کیونکہ اس سے ان کی زرگری کی جڑ کٹتی ہے‘ مفادات ختم ہوتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ توحید کی دعوت مشرکین پر بہت بھاری اور گراں گزرتی ہے.