یہاں یہ بات بھی وضاحت سے سمجھ لیجیے کہ ایک رسول اور مصلح کی دعوت میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے. اگر کوئی شخص صرف واعظ اور معلمِ اخلاق بن کر کھڑا ہو تو اس کی بات لوگوں پر اتنی گراں نہیں گزرتی جتنی اس شخص کی بات جو اس بات کا داعی بن کر اٹھے کہ میں اس پورے نظامِ باطل کو‘ جو غیر اللہ کی اطاعت پر قائم ہے اور جس کی اساس شرک پر ہے‘ بالکل نیست ونابود کر دوں گا اور اللہ کی اطاعت پر مبنی نظام قائم کروں گا. یہ دعوت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کی جاتی‘ اس لیے کہ غیر اللہ کی اطاعت اور مشرکانہ بنیادوں پر قائم نظامِ باطل سے کچھ لوگوں کے سیاسی و معاشی مفادات اور مصلحتیں وابستہ ہوتی 
ہیں.

وہ پیچ در پیچ ایسے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر یہ نظام تلپٹ ہوا تو یہ سب کچھ بدل جائے گا‘ بہت سے اوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہو جائیں گے. اس طرح ہمارے مفادات پر ضرب پڑے گی اور ہماری سیاست و چودھراہٹ ختم ہو جائے گی‘ ہمارا وقار اور احترام خاک میں مل جائے گااور ہمارا اعتماد جاتا رہے گا. اس لیے توحید پر مبنی اسلام کے عادلانہ نظامِ اجتماعی کے قیام کی دعوت مشرکانہ نظام کے مقتدروں‘ سرداروں اور مہنتوں کو کبھی برداشت نہیں ہو سکتی. البتہ اگر آپ کسی جزوی اصلاح کی دعوت لے کر اٹھیں‘ ریفارمر کی حیثیت اختیار کریں یا دین کی محض وہ باتیں پیش کریں جن سے کسی کے مفاد پر زد نہ پڑتی ہو تو پھر آپ کی کسی طرف سے کوئی مخالفت نہیں ہو گی‘ بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو پھولوں کے ہار پہنائے جائیں‘ آپ کا شاندار استقبال کیا جائے اور آپ کی خدمت میں سپاس نامے پیش کیے جائیں.