اجتباء کا صحیح مفہوم ہے کسی کو کسی مقصد کے لیے پسند کر لینا‘ چن لینا اور کھینچ لینا.یہاں جو فرمایا گیا: اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ اِلَـیْہِ مَنْ یَّشَآءُ (اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے) اس مفہوم کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا ہے: ’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے دین کی خدمت کے لیے پسند کر لیتا ہے‘ چن لیتا ہے!‘‘ اس اجتباء کی دو درخشاں مثالیں ملاحظہ ہوں.

پہلی مثال حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کا قبولِ اسلام ہے. آنجنابؓ توحید و شرک کی کشمکش سے بے نیاز روز و شب اپنے مشاغل میں مصروف رہتے تھے‘ جن میں سب سے زیادہ نمایاں شوق تیراندازی اور شکار کا تھا. علی الصبح تیرکمان لے کر شکار کو نکل جانا اور شام کوواپس آنا ان کا معمول تھا. ایک روز ابوجہل نے رسول اللہ سے زیادتی کی اور یہ زیادتیاں اس وقت اس کے معمول میں شامل ہوچکی تھیں. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شام کو واپس لوٹے تو اُن کی ایک لونڈی نے انہیں اس زیادتی کا ماجرا سنایا. قرابت داری کے جذبے نے جوش کھایا اور اسی وقت جا کر اپنی کمان ابوجہل کے سر پر دے ماری. یہی جذبہ ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ذریعہ بن گیا اور حمزہ بن عبدالمطلب نبی اکرم  کے جاں نثاروںمیں شامل ہو گئے. آپؓ بارگاہِ رنبوی سے ’’اَسَدُ اللّٰہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہٖ‘‘ اور ’’سید الشہداء‘‘ کے القابات سے سرفراز ہوئے. رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ.

دوسری درخشاں مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی ہے. نبی اکرم نے دو اشخاص کے متعلق یہ دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے کسی ایک کو شرفِ قبولیت عطا فرما! اللہ تعالیٰ نے عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کو چن لیا اور وہ عمرفاروق ؓ بن گئے. رضی اللہ عنہ وارضاہ اسلام قبول کرنے سے قبل ان کی طبیعت میں غور و فکر کا کوئی مادہ‘ تلاشِ حق کا کوئی داعیہ یا کوئی ایسی علامت دکھائی نہ دیتی تھی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہو کہ وہ خود سیدھی اور سچی راہ کے جویا تھے. بلکہ طبیعت میں لا ابالی پن اور بے پرواہی تھی. نبی اکرم  کو دعوتِ حق دیتے ہوئے چھ برس گزر چکے تھے مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘ بلکہ اس کے برعکس ان کے اندر تعصب سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا اور رسول اللہ سے عداوت اور آپ کی دعوت سے بیزاری بڑھتی چلی گئی. 

یہاں تک کہ ننگی تلوار لے کر آنحضرت کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے. لیکن ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ پتھر دل موم ہو گیا. وہ عمرؓ جو نبی اکرم کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے غلامانِ محمدؐ میں شامل ہو گئے اور ان کی یہ شان قرار پائی کہ نبی  نے فرمایا: لَوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَــکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (۱’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتے!‘‘ تو یہ‘ہے اجتباء.

بیعت ِعقبۂ اولیٰ کے موقع پر یثرب (مدینہ) سے مکہ آنے والوں میں سے کچھ سعید روحوں کو اللہ تعالیٰ نے دولتِ اسلام سے مشرف کر دیا‘ وہ بھی ایک نوعیت کا اجتباء ہے. یہ لوگ جاہلیت کے رسم و رواج کے تحت حج اور عمرے کے لیے مکہ آئے تھے اور کوئی طلبِ ہدایت اور تلاشِ حق ان کے پیش نظر نہ تھی. لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے قبولِ ایمان کے لیے کھول دیے اور وہ نبی اکرم کی دعوت سے متأثر ہو کر مؤمنین ِصادقین کے زمرے میں شامل ہو گئے. ان حضرات گرامی کی یہ بیعت ہی یثرب کے مدینہ النبیؐ بننے اور دارالہجرت قرار پانے کی تمہید بن گئی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ!