اگلی آیت آج کی گفتگو کے مرکز و محور اور عمود کی حیثیت کی حامل ہے اور اس پر کافی غور و تدبر کی ضرورت ہے. آیت اپنے حجم کے لحاظ سے بھی طویل ہے اور بہت سے مضامین پر محیط ہے. ان میں سے ہر مضمون پر اِن شاء اللہ الگ الگ گفتگو بھی ہو گی. فرمایا :

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾ ’’پس (اے نبی ! حالات کی اس ناسازگاری کے باوصف آپؐ کے منصبِ رسالت کی ذمہ داری یہ ہے کہ) آپ اسی (توحید اور دین اسلام) کی دعوت دیتے رہیں‘ اور جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ خود بھی (توحید اور دین کے تقاضوں پر) مضبوطی سے قائم رہیں‘ اور ان (مشرکین و کفار) کی خواہشات کا اتباع نہ کریں‘ اور (ان سے صاف صاف) کہہ دیں کہ میں ہر اُس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو اللہ نے نازل فرمائی ہے‘ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل (کا نظام قائم) کروں. اللہ ہی ہمارا مالک اور پروردگار ہے اور تمہارا بھی. ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ـ. ہمارے اور تمہارے درمیان (اس بات پر) کسی حجت (دلیل بازی اور جھگڑے) کی ضرورت نہیں ـ‘ اللہ ایک دن ہم سب کو (میدانِ حشر میں) جمع کر دے گا اور (انجامِ کار کے لحاظ سے) اسی کی طرف پھر جانا ہے!‘‘

یہ آیت ِمبارکہ واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اس کے مخاطب نبی اکرم  ہیں.ـ آیت کے آغاز میں آنے والے کلمہ ’’فا‘‘ اور ’’لام‘‘ غایت نے ذٰلِکَ سے مل کر اس آیت کا ماسبق کی آیات سے بھی مکمل ربط قائم کر دیا ہے اور اس حکم کا مقصد بھی بیان کر دیا ہے. نیز اسے پس منظر سے بھی مربوط کر دیا ہے جو اس پوری سورۃ الشوریٰ کے نزول کے وقت موجود تھا‘ جس کی چند آیات کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں. یہ سورۂ مبارکہ مکی دَور کے وسط کی سورتوں میں سے ایک ہے . زمانۂ نزول کے پس منظر میں جو کچھ ہو رہا تھا اسے پیشِ نظر رکھیی ـ. مسلمانوں‘ بالخصوص نوجوانوں اور غلاموں کے طبقے میں سے ایمان لانے والوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے‘ نبی اکرم کو بھی ہر قسم کی اذیتیں دی جا رہی تھیں. یثرب (مدینہ) میں یہودیوں کے مضبوط گڑھ تھے‘ محمدٌ رسول اللہ کی دعوت ان تک بھی پہنچ چکی تھی‘ لیکن وہ حاملِ کتاب ہونے کے مدعی ہونے کے باوجود دعوتِ حق کو مٹانے کے لیے مشرکین سے ریشہ دوانیاں کر رہے تھے. 

نجران میں نصاریٰ بھی موجود تھے اور ان کی ایک مختصر تعداد مکہ میں بھی موجود تھی. یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے منکر تھے اور نصاریٰ نے بھی دین کو بدل دیا تھا. انہوں نے شریعت کو ساقط کر دیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ قرار دے دیا تھا. یہود و نصاریٰ میں واضح اختلاف کے علاوہ ان میں سے ہر گروہ میں کئی کئی فرقے تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ بحث میں الجھے ہوئے تھے. مکہ میں قریش اپنے آپ کو حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیٰ نبینا و علیہما الصلوٰۃ والسلام) سے منسوب کرتے تھے‘ لیکن انہوں نے دینِ ابراہیمی کا حلیہ بگاڑ چھوڑا تھا. انہوں نے بیت اللہ شریف کو‘ جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا‘ صنم کدہ بنا دیا تھا اور اس میں تین سو ساٹھ بُت رکھ چھوڑے تھے. کعبہ کا طواف عریاں حالت میں کرنے کو بڑی نیکی کا عمل قرار دیتے تھے. اخلاقی طور پر رذائل و ذمائم کا کوئی شمار ہی نہ تھا. اس صورتِ حال میں بھی نبی اکرم کو ہدایت دی گئی کہ: فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ۚ . پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ فَلِذٰلِکَ سے پس منظر بھی مراد ہے اور اس آیت کی طرف بھی اشارہ ہے جس سے اس گفتگو کا آغاز ہوا تھا‘ یعنی :

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ
’’اس (اللہ) نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم نوح کو دیا تھا اور جو ہم نے (اے نبی ) آپؐ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ؑاور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑکو دیا تھا کہ دین کو قائم کرو اور اس بارے میں تفرقہ میں مت پڑو!‘‘

یہاں پھر نبی اکرم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے: فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ۚ یعنی صیغۂ امر میں رسول اللہ :کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپؐ اسی دین کی دعوت دیتے رہیے اور جیسا کہ آپؐ کو حکم دیا گیا ہے‘ اس پر مضبوطی سے جمے رہیے. یہ مشرکین و کفار اسے قبول کریں یا نہ کریں‘ تصدیق کریں یا تکذیب کریں‘ منظور کریں یا ردّ کریں‘ خواہ گالیاں دیں‘ پتھر ماریں‘ ایذائیں پہنچائیں اور جان کے دشمن بن جائیں‘ آپؐ کے فرضِ منصبی کے اعتبار سے آپؐ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپؐ اسی کی دعوت دیتے رہیں‘ کیونکہ دین کی دعوت آپؐ کا فرضِ منصبی ہے. ’’وَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ‘‘ کے الفاظ میں اس بات کی مزید تاکید کی گئی کہ اس سے آپؐ ایک انچ بھی نہیں ہٹ سکتے‘ آپ کو اس پر جمے رہنا ہے‘ کوئی مصلحت‘ کوئی مشکل‘ کوئی مصیبت‘ کوئی نقصان‘ کوئی خطرہ اور کوئی صدمہ اس دعوت سے منحرف ہونے کے لیے وجہ ِجواز نہیں بن سکتا‘کیونکہ آپؐ اس دعوت پر مأمور ہیں. آپؐ اپنی مرضی سے تو نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کر رہے ‘ آپؐ نے اپنی سوچ سے تو اس دعوت کا آغاز نہیں کیا‘ یہ دعوت ’’ من جانب اللہ‘‘ ہے. آپ اللہ کے رسول اور فرستادہ ہیں‘ لہذا آپؐ اس منصبِ رسالت کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں لگے رہیے! آنحضور کو علی الاعلان دعوت پیش کرنے کا حکم ایک دوسرے اسلوب سے سورۃ الحجر میں بایں الفاظ دیا گیا:

فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴
’’پس (اے نبی !) آپؐ کو جس (دعوت) کا حکم دیا جا رہا ہے اس کو ڈنکے کی چوٹ پرپیش کیجیے اور شرک کرنے والوں کی (مخالفت و مزاحمت کی) بالکل پرواہ نہ کیجیے!‘‘