قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی آیات میں نہایت اہم مضامین کا احاطہ کر لیتا ہے اور اس طرح کوزے میں سمندر بند ہونے کا محاورہ قرآن حکیم کی ہر آیت پر سو فی صد راست آتا ہے. چنانچہ اس آیتِ مبارکہ کے اگلے ٹکڑے میں فرمایاگیا:

وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ
’’اور(اے نبی ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اللہ نے جو بھی کتاب نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا!‘‘

آیتِ کریمہ کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں بڑے اہم مسائل بیان کر دیے گئے ہیں‘ جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں‘ لہذا صرف اشارات پر اکتفا کیا جا سکتا ہے. یہاں نبی اکرم  سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپؐ برملا ایمان بالکتاب کا اعلان فرما دیجیے. یہاں ’’مِنْ کِتٰبٍ‘‘ کی ترکیب خاص طور سے قابلِ غور ہے. اس طرح اس بات کو واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی اکرم  صرف قرآن ہی کو جو خود آپؐ پر نازل ہو رہا ہے‘ منزل من اللہ تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ ہر آسمانی کتاب پر ایمان لانے کا اقرار فرماتے ہیں. آپؐ کا معاملہ ان لوگوں کا سا نہیں جو تفرقہ میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے. تمام آسمانی کتب اور صحیفے دراصل ایک ہی کتابِ ہدایت کے مختلف ایڈیشن ہیں. پہلی کتابیں بھی حق تھیں‘ لیکن وہ محفوظ نہ رہیں‘ محر ّف ہو گئیں. 

اب ہدایت ربانی کا آخری اور کامل ایڈیشن یہ قرآن مجید ہے جو محمد رسول اللہ  پر نازل ہوا. یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ رسول اللہ  کو ایمان بالکتاب کے اقرار و اعلان کا حکم اس شدّ و مد کے ساتھ کیوں دیا جا رہا ہے. اس سے پہلے فرمایا جا چکا ہے : وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ ؕ ’’اور آپؐ ان کی خواہشاتِ نفس کی پیروی نہ کیجیے!‘‘اس وقت عملاً صورتِ حال یہ تھی کہ مشرکینِ مکہ کا آپؐ سے ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ آپؐ کو اس قرآن میں تبدیلی کرنا ہو گی یا کوئی دوسرا قرآن پیش کرنا ہو گا‘ کیونکہ اس قرآن کا موقف انتہائی سخت ہے اور یہ ہمارے معبودوں کی کامل نفی کرتا ہے‘ جنہیں ہمارے آباء و اجداد صدیوں سے پوجتے چلے آ رہے ہیں. قرآن کی بات تسلیم کرنے کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ ہم اپنے آباء و اجداد کو گمراہ اور کافر و مشرک تسلیم کر لیں. لہذا آپ قرآن میں تبدیلی اور لچک پیدا کیجیے یا پھر دوسرا قرآن پیش کیجیے. سورۂ یونس میں یہ مضمون بڑی صراحت کے ساتھ آیا ہے. فرمایا:

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵
’’اور جب انہیں ہماری روشن اور بیّن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو (آخرت میں) ہم سے ملنے کا یقین نہیں رکھتے ‘کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی دوسرا قرآن لے آؤ یا اسی میں کچھ ردّ و بدل کرو! (اے نبی !) کہہ دیجیے کہ میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنی مرضی سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کروں. میں تو خود اس کے اتباع پر مجبور ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے. اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے خود بڑے ہولناک دن کے عذاب کا خوف ہے.‘‘

یہی بات اختصار لیکن انتہائی جامعیت کے ساتھ اس آیت میں بیان فرمائی جا رہی ہے کہ: وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ ۚ ’’اور آپ ( برملا) کہہ دیجیے کہ میں تو خود یقین محکم رکھتا ہوں اس پر جو اللہ نے کتاب میں سے مجھ پر نازل کیا ہے.‘‘

اگر میں یہ باتیں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوتا تو مجھے اس میں ترمیم و تنسیخ کا اختیار بھی ہوتا. اگر یہ میرے اپنے نظریات ہوتے‘ میرا اپنا پروگرام ہوتااور اپنا پارٹی منشور ہوتا جس کو چند لوگوں نے مل جل کر باہمی مشاورت سے بنایا ہوتا تو مصلحت کے پیش نظر اس میں ردّو بدل یا تنسیخ و ترمیم کا معاملہ ہو سکتا تھا. ہماری سیاسی پارٹیاں تو آئے دن وقتی کامیابی اور مصلحت کی خاطر اپنے بنیادی اصولوں تک میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہیں. ایک طرف یہ دعویٰ کہ ہمارا نصب العین اسلامی نظام کا قیام ہے اور دوسری طرف یہ حال کہ بحالی ٔجمہوریت کے لیے اسلام دشمنوں سے اتحاد کر لیا جاتا ہے. نبی اکرم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپؐ علی الاعلان کہہ دیجیے کہ میں تو قرآن کا ایک شوشہ تک بدلنے کا مجاز نہیں ہوں‘ میں خود اس کا پابند ہوں جو مجھ پر وحی کیا جا رہا ہے. جیسا کہ سورۂ یونس کے ضمن میں حوالہ دیا جا چکا. اَلْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہ بَعْضًا (قرآن کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی تفسیر بیان کرتا ہے) کے اصول کے پیش نظر سورۂ یونس کی ایک اور آیت ملاحظہ کیجیے:

وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۟۳۷﴾ (یونس)
’’اور یہ قرآن وہ چیز ہے ہی نہیں جو اللہ (کی ہدایت) کے بغیر گھڑ لی جائے‘ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور ’’الکتاب‘‘ کی تفصیل ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کائنات کے پروردگار کی طرف سے ہے.‘‘