اس سے اگلے ٹکڑے میں فرمایا گیا:

وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ 
’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان (نظامِ) عدل قائم کروں!‘‘

سورۂ ھود کے آغاز میں ‘جو زمانۂ نزول کے لحاظ سے مکی سورت ہے‘ یہ اصول بیان ہوا کہ:
الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱

’’ا ل ر.یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں‘ پھر ان کی تفصیل کی گئی اس (اللہ) کی طرف سے جو بڑا دانا باخبر ہے.‘‘
مطلب یہ ہوا کہ نزولِ قرآن کے ابتدائی یعنی مکی دَور میں چھوٹی چھوٹی آیات میں وہ بنیادی احکام اورا ٹل اصول بیان فرمائے گئے جن پر دعوتِ اسلامی اٹھ رہی تھی اور جو اقامت ِدین کی جدوجہد کے اساسی اور اصولی نکات کی حیثیت رکھتے تھے. پھر دعوتِ اسلامی کے تدریجی ارتقاء کے دوران مختلف مراحل میں ان ہی نکات کی شرح و تفصیل کی گئی. مثال کے طور پر سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات پر‘ جو آغازِ وحی کے دَور کی آیات ہیں‘ تدبر کیجیے .فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳
’’اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! کھڑے ہو جائیے اور (لوگوں کو اُن کے عقائد و اعمال کے انجامِ بد سے) خبردار کیجیے‘ اور اپنے ربّ کی کبریائی (کا اعلان) کیجیے!‘‘

ان آیات میں سے تیسری آیت وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ خاص طور سے لائقِ توجہ ہے. تکبیر کا لغوی مطلب کسی کو بڑا کرنا ہے. یعنی کسی بالاتر اقتدار کی بالادستی اور کبریائی کااقرار‘ اعلان اور قیام اس کی ’’تکبیر‘‘ ہے. ’’تکبیر ربّ‘‘ کے حکم میں فصاحت و بلاغت اور ایجاز و اختصار کے لحاظ سے دعوتِ اسلامی کا ہدفِ مقصود مکمل طور پر موجود ہے‘ لیکن آگے چل کر اس جدوجہد کے مختلف مراحل میں حسبِ موقع اس حکم کی تفصیل و تشریح کی گئی. جیسے سورۃ التوبہ‘ سورۃ الفتح اور سورۃ الصف (مدنی دَور کی سُوَر) میں اس مفہوم و مدّعا کو اس طرح واضح کیا گیا ہے :

ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
(التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘ الصف:۹
’’وہی (اللہ) ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو الھدیٰ (قرآن مجید) اور دینِ حق (نظامِ عدلِ اجتماعی) دے کر‘ تاکہ وہ اس (دین) کو تمام جنسِ دین (نظام ہائے اطاعت) پر غالب کر دے!‘‘

اور سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۹۳ میں فرمایا:

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ 
’’اور ان (مشرکوں) سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہنے پائے اور دین (نظام اطاعت) صرف اللہ ہی کا ہو جائے!‘‘

آیت ِزیر درس میں یہی بات ایک دوسرے اسلوب سے اجمال کے ساتھ بطورِ اصول بیان ہوئی ہے جس میں رسول اللہ سے برملا اعلان کرنے کا کہا گیا کہ آپؐ فرما دیجیے کہ:

وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ؕ
’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان (نظامِ) عدل قائم کروں!‘‘

یعنی مَیں محض واعظ اور مبلغ بن کر نہیں آیا. اگر تم اس مغالطے میں مبتلا ہو تو حقیقت نفس الامری سے بہت دُور ہو. مجھے تو حکم ملا ہے کہ تمہارے مابین اللہ کا عطا کردہ نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کروں. میرا موقف تو یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اور شریعت کے مطابق یہ نظام عدل قائم نہیں ہوتا میرا مشن تکمیل نہیں پاتا. میں شاہد بھی ہوں‘ مبشر و نذیر بھی اور داعی الی الخیر بھی ہوں‘ مذکر و واعظ‘ مربی و مزکی‘ معلم و مدرّس اور رحمت و رأفت بھی ہوں ‘لیکن اس کے ساتھ ہی میں اس پر بھی مأمور ہوں کہ میں عدل و انصاف کا نظام قائم کروں‘ لوگوں کے مابین موجود ظلم و استحصال ختم کروں اور بحیثیت رسول‘ اللہ اور اس کے دین (نظامِ حیات) کو تمام نظام ہائے زندگی اور نظام ہائے اطاعت پر غالب کر دوں. لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ؕ

حقیقت یہ ہے کہ جب سے ہم نے کتاب اللہ سے رہنمائی اور ہدایت طلب کرنا چھوڑ دی‘ اسے صرف حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کا ذریعہ بنا لیا اور اسے ریشمی جزدانوں میں لپیٹ کر احتراماً طاقوں کی زینت بنا دیا‘تو ہم اس مقصد ہی کو فراموش کر بیٹھے جو نبی اکرم  کی بعثت کا امتیازی مقصد اور ختمِ نبوت کا لازمی تقاضا تھا کہ نبی اکرم ‘ بنفسِ نفیس وہ نظامِ عدلِ اجتماعی قائم فرمائیں جو ظلم و جور اور تعدّی سے پاک ہو. ظاہر ہے کہ اس عادلانہ نظام کا دستور اللہ تعالیٰ ہی مرحمت فرما سکتا ہے جو مالک الملک‘ احکم الحاکمین اور ربّ العالمین ہے. چنانچہ نبی اکرم  نے اپنی حیات ِطیبہ میں یہ نظامِ عدل و قسط جزیرہ نمائے عرب کی حد تک قائم فرما دیا اور اپنے بعد یہ فریضہ اُمت کے سپرد فرمایا.