عادلانہ نظام اسی نظامِ حیا ت اور دستورِ زندگی کو کہا جا سکتا ہے جو زندگی کے محض ایک جزو سے تعلق نہ رکھتا ہو ‘بلکہ انسان کی انفرادی و اجتماعی پوری زندگی پر محیط ہو. یہ عدل اعتقادی و نظریاتی بھی ہو گا‘ یعنی اس کی اساس توحید ہو گی اور یہ ہر قسم کے شرک کی نجاست سے پاک ہو گا. یہ نظام عبد اور معبود کے مابین صحیح تعلق بھی قائم کرے گا. یہ بندے کو بتائے گا کہ اس کے مالک کے حقوق کیا ہیں اور اس کی ایسی تعلیم و تربیت کرے گا کہ جس کی بدولت وہ دل کی آمادگی‘ شوق و ذوق اور والہانہ محبت کے ساتھ ان حقوق کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت تیار بلکہ بے قرار رہے گا. یہ عدل معاشی میدان میں بھی ہو گا‘ جیسا کہ سورۃ الحشر میں فرمایا گیا: 
کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ (آیت ۷’’تاکہ (مال و اسباب اور دولت) صرف تمہارے تونگروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہیں!‘‘ لہذا اس نظامِ عدل میں ایسے تمام طور طریقے استعمال کیے جائیں گے کہ سرمایہ صرف امیروں کے اُلٹ پھیر میں نہ رہ جائے.

اور یہ عدل معاشرتی میدان میں بھی ہو گا. اس نظامِ عدل میں نہ تو کسی کو نسل و نسب‘ رنگ و زبان اور وطن و مکان کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل ہو گا اور نہ ہی مال و منال‘ منصب و وجاہت اور شہرت و حشمت کی بنیاد پر کوئی عز و شرف حاصل ہو گا. بلکہ فضیلت و امتیاز کا معیار صرف ’’تقویٰ‘‘ ہو گا‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـٹکُمْ ؕ (الحجرات:۱۳’’یقینااللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شرف والا وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو‘‘. پس نبی اکرم سے یہ کہلوا کر ’’اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ‘‘ ان تمام امور کا احاطہ کر لیا گیا جو عدل کے مفہوم و مدعا کا لازمی تقاضا ہے. اسی کا نام اقامتِ دین اور اظہارِ دین ہے. اسی کا حکم حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اور محمد رسول اللہ کو ’’اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘‘ کے الفاظ میں دیا گیااور نبی اکرم کی تو امتیازی شان ہی یہ مقرر ہوئی کہ وہ اس حکم کی بالفعل تکمیل فرمائیں ‘تاکہ تاقیامِ قیامت بنی نوعِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جائے!