میں چاہتا ہوں کہ اس گفتگو کے اختتام سے قبل اس موقع پر آپ کے سامنے اسی سورۃ الشوریٰ کی سترہویں آیت اور سورۃ الحدید کی پچیسویں آیت کا حوالہ بھی پیش کر دیا جائے‘ جو درحقیقت اسی ارشادِ ربانی : وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ کی شرح ہے‘ چنانچہ سورۃ الشوریٰ کی سترہویں آیت کی ابتدا میں فرمایا:

اَللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ ؕ
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ الکتاب (قرآن مجید) اور المیزان (شریعت) نازل فرمائی ہے!‘‘

اور سورۃ الحدید کی پچسویں آیت میں فرمایا:
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ

’’بے شک ہم نے اپنے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجے اور ان کے ساتھ الکتاب اور المیزان اتاری تاکہ لوگ عدل پر قائم ہو جائیں!‘‘ ان دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے جتنے بھی رسول مبعوث فرمائے اور جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ رسول ان کتبِ الٰہی کے ذریعے وہ ’’المیزان‘‘ نصب کر دیں جس سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جس کی اساس عدل و قسط پر قائم ہو. عادلانہ نظام کی صحیح تعبیر کے لیے ’’المیزان‘‘ (ترازو) سے بہتر اور کوئی لفظ نہیں ہو سکتا. اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو استعمال فرماتے. میزان (ترازو) کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز کو تولتا ہے اور اس کے صحیح وزن کو مقرر کرتا ہے. چنانچہ دین حق درحقیقت ’’المیزان‘‘ ہے جس میں ہر ایک کا حق متعین کر دیا گیا ہے. اللہ کا دین یہ بتاتا ہے کہ کس کا کیا حق ہے‘ کس پر کیا واجب ہے‘ فرائض کیا ہیں اورحقوق کیا ہیں ‘اور ان کے مابین توازن کس قدر ضروری ہے اور ان کی بالفعل ادائیگی کس طرح سے ہونی ہے.

اس ’’المیزان‘‘ کے قیام اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے قوتِ نافذہ ضروری ہے‘ اور اس قوتِ نافذہ (حکومت) کو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تابع کر دینا ہی اقامتِ دین و اظہارِ دین ہے. جب تک یہ فرض انجام نہ دیا جائے یا انجام دینے کی سعی و جہد میں اپنے جسم و جان کی توانائیاں نہ لگائی جائیں اور اپنا مال نہ کھپایا جائے‘ ایمان باللہ‘ ایمان بالرسل اور ایمان بالآ خرت کا تقاضا پورا نہیں ہوتا. دین کے حصے بخرے کر دینے اور نظامِ سیاست و حکومت کو دین سے علیحدہ کر کے محض وعظ و نصیحت اور عبادات و نوافل کے فضائل بیان کر دینے سے دین کا منشاء پورا نہیں ہوتا.