آگے فرمایا:
اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ
’’(اے نبی ﷺ ! کہہ دو) اللہ ہی ہمارا ربّ ہے اور وہ تمہارا ربّ بھی ہے!‘‘
لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ
’’ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں.‘‘ یعنی میرے اور تمہارے درمیان ایک نزاع اس طرح ختم ہوتا ہے کہ میں جو کچھ پیش کر رہا ہوں وہ دین ‘ حق اور اپنا فرض سمجھ کرپیش کر رہا ہوں اور اس کی جزاء میں اپنے ربّ سے پاؤں گا. تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے بارے میں خود غور کرو‘ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو‘ اگر یہ نفس پرستی ہے‘ بددیانتی ہے تو اس کی جوابدہی تم کو کرنا ہو گی.
لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ
’’ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی حجت بازی نہیں ہے‘‘.
بحث و تمحیص اور مناظرے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا.
اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾
اللہ تعالیٰ ہی ہم سب کو جمع کرے گا. ایک دن آئے گا جس دن تمام معاملات طے ہو جائیں گے اور آخرکار اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ جانا ہے. سارے معاملات وہاں فیصل ہوں گے کہ کس کی کیا ذمہ داری تھی اور اس نے بالفعل کیا کیا. کس کا کیا موقف تھا. وہاں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہ جائے گی.
آخر میں مَیں چاہتا ہوں کہ ’’اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ‘‘ کے حکم کو آپ ان اصطلاحات کے ساتھ اپنے ذہنوں میں تازہ کر لیں جو اس سلسلۂ تقاریر میں بیان کی گئیں. دین کا بنیادی اور اساسی تقاضا اور اس کی پہلی منزل ’’عبادتِ ربّ‘‘ ہے‘ جس کا لازمی تقاضا ’’فریضہ شہادت علی الناس‘‘ کی ادائیگی ہے‘ جو دین کی عمارت کی دوسری اور بلند تر منزل ہے‘ جبکہ اس کا حتمی اور تکمیلی تقاضا اور بلند ترین منزل ’’اقامتِ دین‘‘ ہے!!
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
اقول قولی ھذا و استغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات