یہ مضمون دراصل ایک تقریر پر مبنی ہے جو اوّلاً جنوری ۱۹۶۸ء میں مسلسل دو جمعوں میں جامع مسجد خضراء سمن آباد‘ لاہور میں کی گئی. پھر اسی ماہ شہر قصور کی ایک جامع مسجد میں خطاب کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی یہی مضامین کسی قدر اختصار کے ساتھ بیان ہوئے. پھر فروری ۱۹۶۸ء میں اجمل باغ کالج صادق آباد‘ تعمیر ملت ہائی سکول سکھر اور گورنمنٹ کالج جھنگ میں انہی مضامین پر مشتمل تقاریر کی گئیں بعدہٗ اسے مرتب کر کے کسی قدر اضافے کے ساتھ ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کی مئی و جون ۱۹۶۸ء کی اشاعتوں میں شائع کیا گیا. اور اب مزید اضافوں کے ساتھ کتابچے کی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے مقصد بالکل واضح ہے ‘ یعنی یہ کہ مسلمانوں کو ’’رجوع الی القرآن‘‘ کی دعوت دی جائے اور انہیں قرآن مجیدکو پڑھنے‘ سمجھنے اور اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانے پر آمادہ کیا جائے اگر کسی کو اس تحریر کے مطالعے سے اپنے دل کی گہرائیوں میں قرآنِ حکیم کی جانب رغبت و شوق کا جذبہ پیدا ہوتا محسوس ہو تو اس کی خدمت میں استدعا ہے کہ وہ راقم کے لیے امن و ایمان اور سلامتی و اسلام ٭ کی دعا فرمائے!

دعاگو
خاکسار : اسرار احمد 

٭ ایک مسنون دعا : اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ 
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ!
برادرانِ دین!

آپ کو معلوم ہے کہ آج کل ہمارے ملک میں سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطحوں پر ’’نزولِ قرآن مجید کا چودہ سو سالہ جشن‘‘ منایا جا رہا ہے. 
(۱اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینے کی ہیں .

ایک یہ کہ اس قسم کی نئی نئی تقریبات کی ایجاد و ترویج ہمارے دین کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی. ہمیں اپنے تمام دینی جذبات کے اظہار کے لیے صرف ان تقریبات پر اکتفاء و قناعت کرنا چاہیے جو حضور نبی اکرم سے ماثور چلی آ رہی ہیں. ان میں نت نئے اضافوں سے دین میں بدعت کا دروازہ کھلتا ہے‘ جس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں. آنحضور کا یہ فرمان مبارک ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ : 

وَشَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُّلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ (۲
’’سب سے برے کام وہ ہیں جو دین میں نئے ایجاد کر لیے جائیں. ایسا ہر کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی و ضلالت ہے.‘‘

موجودہ سلسلۂ تقریبات کے ساتھ لفظ ’’جشن‘‘ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے‘ اس سے ذہن خواہی نخواہی جشنوں کے اس سلسلے کی جانب منتقل ہو جاتا ہے جو خیبر سے کراچی تک مختلف علاقائی ناموں سے منائے جا رہے ہیں اور جن میں اس نام نہاد ثقافت کا 
(۱) واضح رہے کہ یہ تقریراس دور کی ہے جب ۱۹۶۸ء میں صدر ایوب خان کے دور اقتدار کے دس برس مکمل ہونے کی خوشی میں پورے ملک میں سرکاری سطح پر مختلف عنوانات کے تحت ’’جشن‘‘ منائے جا رہے تھے‘ مثلاً جشن خیبر اور جشن مہران وغیرہ. اسی سلسلہ ہائے جشن میں ایک اضافہ ’’جشن نزول قرآن‘‘ کا بھی تھا. 

(۲) سنن النسائی‘ کتاب صلاۃ العیدین‘ باب کیف الخطبۃ مظاہرہ کیا جاتا ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات پر ایک کھلا طنز ہے. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الحاد پسند اور اباحیت پرست لوگوں کے لیے اس قسم کے بے شمار جشنوں کے اہتمام کے ساتھ جشن نزولِ قرآن مجید کا انعقاد غالباً ایک رشوت ہے جو مذہبی ذوق رکھنے والے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے .واللہ اعلم.

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس قسم کی تقریبات سے اگر یہ فائدہ اٹھایا جائے کہ ان کے ذریعے عوام میں دین و مذہب سے لگاؤ پیدا ہو‘ قرآن حکیم کے ساتھ ان کا ربط و تعلق بڑھے اور اس بُعد میں کمی ہو جو آج ہمارے اور قرآن مجید کے مابین پیدا ہو گیا ہے ‘تو پھر بھی ان کے انعقاد کے جواز کا کوئی پہلو شاید پیدا کیا جا سکے‘ لیکن جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس قسم کا کوئی فائدہ اس نوعیت کی تقاریب سے حاصل نہیں ہوتا. قرآن کی تزئین و آرائش یا حسن قرا ء ت کے مظاہروں اور مقابلوں سے تو بہرحال اس قسم کے کسی فائدے کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. جو کانفرنسیں یا جلسے قرآن مجید کے نام پر منعقد ہوتے ہیں ان میں بھی اکثر سارا زور قرآن مجید کے مقام و مرتبہ کی وضاحت یا اس کی شان کے بیان پر صرف کر دیا جاتا ہے اور اس بات کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے کہ ہم پر بحیثیت مسلمان قرآن مجید کے کیا کیا حقوق عائد ہوتے ہیں اور ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہے! حالانکہ جہاں تک قرآن مجید کے مقام یا مرتبے اور شان و عظمت کا تعلق ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ اس کا بیان تو کجا کماحقہ‘ ادراک بھی کسی انسان کے بس میں نہیں. سیدھی سی بات ہے کہ ؏ قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند گوہری! 

قرآن حکیم کے اصل مقام و مرتبہ کا علم صرف اُس شاہِ ارض و سماوات کو ہے جس کا یہ کلام ہے اور اس کی حقیقی قدر و قیمت سے آگاہ صرف وہ ذاتِ بابرکت ہے جس پر یہ نازل ہوا 
صلی اللّٰہ علیہ وسلم. (۱)
ہمارا اصل کام یہ ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ پہلے یہ سمجھیں کہ اس کتابِ 

(۱) قرآن مجید کی حقیقی قدر و منزلت اور واقعی مقام و مرتبہ کا ادراک عام انسانی ادراکات کی سطح سے اس قدر ماوراء ہے کہ فکر انسانی کی رہنمائی کے لیے خود قرآن نے ایک تمثیل کے ذریعے اس کا بس ایک ہلکا سا تصور پیش کیا ہے کہ: (باقی اگلے صفحہ پر) مبارک کے کیا حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں. پھر یہ دیکھیں کہ آیا ہم انہیں ادا کر رہے ہیں یا نہیں. اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے کہ تو پھر یہ سوچیں کہ ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہو سکتی ہے اور پھر بلاتاخیر اِس کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں. اس لیے کہ اس کا براہِ راست تعلق ہماری عاقبت اور نجات سے ہے اوراس معاملے میں کسی کوتاہی کی تلافی قرآن حکیم کی شان میں قصیدے پڑھنے سے بہرحال نہیں ہو سکتی. چنانچہ میں آج کی صحبت میں انہی امور پر کسی قدر وضاحت سے گفتگو کروں گا.