ماننے کا اصطلاحی نام ایمان ہے اور اس کے دو پہلو ہیں. ایک ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‘‘ اور دوسرے ’’ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ اقرارِ لسانی دائرۂ اسلام میں داخلے کی شرطِ لازم ہے اور تصدیق قلبی حقیقی ایمان کا لازمہ ہے.
قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جو برگزیدہ فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا. اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے ‘لیکن حقیقی ایمان اسے اُس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے قلب میں پیدا ہو جائے. پھر ظاہر ہے کہ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی تو خودبخود قرآن کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہو جائے گا اور جوں جوں قرآن پر ایمان بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم و احترام میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا. گویا ایمان و تعظیم لازم و ملزوم ہیں.
قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پر ایمان سب سے پہلے خود نبی کریمﷺ اور آپ کے ساتھی رضوان اللہ علیہم اجمعین لائے.
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ (البقرۃ :۲۸۵)
’’ایمان لایا رسولؐ اس پر جو نازل کیا گیا اس کی جانب اور (اس کے ساتھی) اہل ایمان.‘‘
یہ ایمان پورے تصدیق قلب کے ساتھ تھا اور اس گہرے یقین پر مبنی تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے. چنانچہ ایک طرف تو اس کی تعظیم و احترام کا گہرا نقش ان کے قلوب پر ثبت ہو گیا اور دوسری طرف گہری محبت اور والہانہ عشق کا ایک تعلق اس کے ساتھ قائم ہوگیا. چنانچہ نبی کریمﷺ کو نزولِ وحی کا شدت کے ساتھ انتظار رہتا تھا اور آپؐ اس کے لیے بے چین رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ وحی جلد جلد آیا کرے. پھر جب قرآن اترتا تھا تو آپﷺ کمالِ شوق سے جلد از جلد اس کو یاد کر لینے کی کوشش کرتے تھے. حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ازراہِ محبت و شفقت ان امور میں مبالغے سے منع فرمایا. چنانچہ ارشاد ہوا کہ :
وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ … (طٰـہٰ : ۱۱۴)
’’قرآن کے لیے جلدی نہ کرو.‘‘
اور
لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾ (القیامۃ ۱۶)
’’ قرآن (کو یاد کرنے) کی جلدی میں اپنی زبان کو (تیزی سے) حرکت نہ دو.‘‘
نزولِ قرآن کے ابتدائی دَور میں جب ایک بار وحی کی آمد میں قدرے دیر ہو گئی تو یہ وقفہ آنحضورﷺ پر اس قدر شاق گزرا کہ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ شدتِ غم سے میں سوچتا تھا کہ اپنے آپ کو پہاڑ پرسے گرا دوں. رات کا اکثر حصہ آپﷺ اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑے ہو کر قرآن پڑھتے ہوئے گزار دیتے تھے ‘حتیٰ کہ آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے اور قرآن ہی کی شہادت ہے کہ ایک تہائی‘ آدھی اور دو تہائی رات اس طرح بسر کرنے میں بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ کا اتباع کرتے تھے. جیسا کہ مَیں بعد میں تفصیل سے عرض کروں گا ‘اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم ہفتے میں ایک بار ضرور قرآن مجید ختم کرتے تھے اور خود حضورﷺ جن پر قرآن نازل ہوا‘ ان کا حال یہ تھا کہ صحابہؓ سے باصرار فرمائش کر کے قرآن مجید سنا کرتے تھے اور بسا اوقات شدتِ تاثر سے آپﷺ کے آنسو بہہ نکلتے تھے.
آنحضورﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قرآن سے اس گہرے شغف اور اس کی جانب اس قدر التفات کا سبب یہ تھا کہ انہیں یہ ’’حق الیقین‘‘ حاصل تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اس کے بالکل برعکس ہمارا حال ہے. قرآن کے مُنزَّل من اللہ ہونے کا اقرار تو ہم کرتے ہیں‘ اور اس پر بھی خدا کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں ان لوگوں میں پیدا فرما دیا جو قرآن کو خدا کا کلام مانتے ہیں‘ لیکن‘ اِلا ماشاء اللہ‘ اس کے کلامِ الٰہی ہونے کا یقین ہمیں حاصل نہیں اور درحقیقت یہی ہمارے قرآن سے بعد اور اس کی جانب عدمِ التفات و توجہ کا اصل سبب ہے. آپ شاید میری اس بات سے ناراض ہوں ‘لیکن اگر ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور ان کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ واقعی ہمارے قلوب قرآن پر یقین سے خالی ہیں اور ریب اور شک نے ہمارے دلوں میں ڈیرا ڈالا ہوا ہے. ہماری اس کیفیت کا نقشہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں کھینچاہے :
وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ (الشوریٰ:۱۴)
’’اور جو لوگ وارث ہوئے کتابِ الٰہی کے ان کے بعد وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں.‘‘
یہی وجہ ہے کہ نہ ہمارے دلوں میں اس کی کوئی عظمت ہے‘ نہ اس کو پڑھنے پر ہماری طبیعت آمادہ ہوتی ہے‘ نہ اس پر غور و فکر کی کوئی رغبت ہم اپنے اندر پاتے ہیں اور نہ ہی اسے زندگی کا واقعی لائحہ عمل بنانے کا خیال کبھی ہمیں آتا ہے. اس پوری صورتِ حال کا اصل سبب ایمان اور یقین کی کمی ہے اور جب تک اسے دُور نہ کیا جائے کسی وعظ و نصیحت سے کوئی پائیدار نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا.
لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دل کواچھی طرح ٹٹولے اور دیکھے کہ وہ قرآن مجید کو بس ایک متوارث مذہبی عقیدے (dogma) کی بنا پر ایک ایسی ’’مقدس آسمانی کتاب‘‘ سمجھتا ہے جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو‘ یا اسے یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ اس سے ہدایت پائیں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں. اگر دوسری بات ہے تو فہوالمطلوب اور اگر پہلا معاملہ ہے‘ اور مجھے اندیشہ ہے کہ ہماری ایک عظیم اکثریت کے ساتھ یہی صورت ہے‘ تو پھر سب سے پہلے ایمان کی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی. اس لیے کہ قرآن مجید کے دوسرے تمام حقوق کی ادائیگی کا مکمل انحصار اسی پر ہے.
پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کی عملی تدبیر کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان کی تحصیل کا سب سے زیادہ آسان اور سب سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ تو اصحابِ ایمان و یقین کی صحبت ہے. یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں ایمان و یقین کی جو کیفیت مجسمہ ایمان اور پیکر یقینﷺ کی صحبت کی بدولت پیدا ہوئی تھی اس کا تصور بھی اب ناممکن ہے آپﷺ کی وفات کے بعد بھی عوام الناس تو نورِ ایمانی کے اکتساب کے لیے ایسے خواص کی صحبت ہی کے محتاج ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین کی شمعیں روشن ہوں‘ لیکن خود اُن ’’خواص‘‘ کے لیے نورِ ایمان کا سب سے بڑا منبع قرآن مجید ہے. اور اس کے بعد اخبار و آثار اور سیرتِ رسول ﷺ اور سیر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایسا مطالعہ جس سے طالب کو حضورؐاور صحابہؓ کی معنوی صحبت میسر آ جائے رہا خود قرآن پر یقین اور اس میں اضافہ تو اس کا تو بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خود قرآن مجید ہے. (۱)
جیسا کہ میں بعد میں کسی قدر تفصیل سے عرض کروں گا‘ ایمان درحقیقت کوئی خارج سے ٹھونسی جانے والی چیز ہے ہی نہیں‘ اس کی شمع تو انسان کے اپنے باطن میں روشن ہے اور اس کا قلب بذاتِ خود وہ جامِ جہاں نما ہے جس میں کائنات کے وہ تمام حقائق ازخود منعکس ہیں جن کا دوسرا نام ایمان ہے. ہوتا صرف یہ ہے کہ غلط ماحول اور غلط تعلیم و تربیت کے اثرات سے انسان کی شمعِ باطن کی روشنی دھندلا (۱) ؎
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو یہ قرآں کے سیپاروں میں
(مولانا ظفر علی خان) جاتی ہے (۱) اور اس کے اعمال بد کے سبب سے اس کا آئینۂ قلب مکدر ہو جاتا ہے! (۲)
اور اس آئینے کو صیقل کرنے اور انسان کی اس شمع باطن کے نور کو اجاگر کرنے کے لیے ہی کلامِ الٰہی تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ﴿۸﴾ (۳) بن کر نازل ہوا ہے. تلاشِ حق کی نیت سے اسے پڑھا اور اس پر غور و فکر کیا جائے تو سارے حجابات دُور ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان کا باطن نورِ ایمان سے جگمگااٹھتا ہے.
یہ توہوئی نور ِ ایمانی کی اوّلین تحصیل‘ اس کے بعد بھی جب کبھی غفلت یا غلبۂ بہیمیت کے سبب سے آئینۂ قلب غبار آلود ہو جائے تو اس کے جلاء و صیقل کا مؤثر ترین ذریعہ قرآن مجید ہی ہے‘ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق آنحضورﷺ نے فرمایا :
اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُکَمَا یَصدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا جِلَاءُ ھَا؟ قَالَ : کَثَرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ (رواہ البیہقی)
’’بنی آدم کے قلوب بھی اسی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے لوہا پانی پڑنے سے!‘‘ دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ! اس زنگ کو دُور کس چیز سے کیا جائے؟ فرمایا : ’’موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت!‘‘
خلاصۂ کلام یہ کہ محض ایک متوارث عقیدے کے طور پر قرآن کو ایک مقدس آسمانی کتاب ماننے سے ہماری موجودہ صورتِ حال میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی اور قرآن مجید کے ساتھ عدم التفات کا جو رویہ ہمارا اس وقت ہے ‘وہ نہیں بدل سکتا. قرآن مجید کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کی ادائیگی کی اوّلین شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمارے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری (۱) کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ… الخ (حدیث نبویؐ ) ’’ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے‘ پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.‘‘
(۲) کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ ( المطففین:۱۴)
’’نہیں‘ بلکہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ان کے قلوب پر زنگ چڑھ گیا ہے.‘‘
(۳) سورۂ ق‘ آیت ۸ : ’’سجھانے والی اور یاددہانی ہر اُس بندے کے لیے جو (خدا کی طرف) رجوع کرے.‘‘
ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے.
اس یقین کے پیدا ہوتے ہی قرآن کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آجائے گا. یہ احساس کہ یہ ہمارے اس خالق و مالک کا کلام ہے جس کی ذات تبارک و تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے‘ اور جس کا کسی ادنیٰ ترین درجے میں بھی کوئی تصور ہمارے بس میں نہیں اور جس کی ذات کے ادراک سے عجز کا احساس ہی بقول افضل البشر بعد الانبیاء کمالِ ادراک (۱) ہے‘ ہمارے فکر و نظر میں ایک انقلاب برپا کر دے گا. پھر ہمیں محسوس ہو گاکہ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے قرآن سے بڑی کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت موجود نہیں. (۲)
پھر اس کی تلاوت ہماری روح کی غذا اور اس پر غور و فکر ہمارے قلوب و اذہان کے لیے روشنی بن جائیں گے اور یقینا یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی کہ اس کی تلاوت سے ہم کبھی سیرنہ ہو سکیں گے اور اپنی بہترین ذہنی و فکری صلاحیتوں اور اپنی پوری عمر کو اس پر تدبر و تفکر میں کھپا کر بھی ہم محسوس کریں گے کہ ؏
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ! (۱) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک قول ’’اَلْعِجْزُ عَن درکِ الذَّاتِ اِدْرَاکٗ‘‘ جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ گرہ لگائی کہ ’’وَالْبَحْثُ عَن کُنْہِ الذَّاتِ اِشراکٗ‘‘
(۲) جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن ایسی دولت عطا ہوئی اور پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی اور کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی ہے ‘اس نے قرآن کی قدر و منزلت کو نہ پہچانا.