ماننے اور پڑھنے کے بعد تیسرا حق قرآن مجید کا یہ ہے کہ اسے ’’سمجھا‘‘ جائے اور ظاہر ہے کہ کلامِ الٰہی نازل ہی اس لیے ہوا ہے اور اس پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا فہم حاصل کیا جائے. بغیر فہم کے مجرد تلاوت کا جواز ایسے لوگوں کے لیے تو ہے جو پڑھنے لکھنے سے بالکل محروم رہ گئے ہوں اور اب تعلیم کی عمر سے بھی گزر چکے ہوں. ایسے لوگ اگر ٹوٹے پھوٹے طریق پر تلاوت کر لیں تو بھی بہت غنیمت ہے اور اس کا ثواب انہیں ضرور ملے گا ‘بلکہ ایک ایسا اَن پڑھ شخص جو ناظرہ بھی نہ پڑھ سکتا ہو اور اب اس کے لیے اس کا سیکھنا بھی ممکن نہ ہو‘اگر اس یقین کے ساتھ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے‘ اسے کھول کر بیٹھتا ہے اور محبت و عقیدت اور احترام و تعظیم کے ساتھ اس کی سطور پر محض انگلی پھیرتا رہتا ہے تو اس کے لیے اس کا یہ عمل بھی یقینا موجب ثواب و برکت ہو گا. لیکن (۱پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے تعلیم پر زندگیوں کا اچھا بھلا عرصہ صرف کر دیا ہو اور دنیا کے بہت سے علوم و فنون حاصل کیے ہوں‘ مادری ہی نہیں غیرملکی زبانیں بھی سیکھی ہوں‘ اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے کہ وہ قرآن کی تحقیر و توہین اور تمسخر (۱) دراصل یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث میں بیان ہوئی‘ لیکن جس سے یہ بات بالکل غلط طور پر سمجھی گئی کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا اور صاحب استعداد آدمی بھی قرآن کو بے سمجھے بوجھے اور غلط سلط پڑھنے پر بھی عنداللہ ثواب کا حقدار ہو گا :

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : الْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّــفَـرَۃِ الْکِـرَامِ الْبَرَرَۃِ وَالَّـذِیْ یَقْرَئُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَھُوَ عَلَـیْہِ شَاقٌّ لَّہٗ اَجْرَانِ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا : ’’ قرآن کے ماہر کا درجہ تو معزز اور وفادار اور فرمانبردار فرشتوں کا ہے ہی‘ رہا وہ شخص جو قرآن کو پڑھتے ہوئے اٹکتا ہو اور اس کے لیے زحمت اور مشقت اٹھاتا ہو تو اس کے لیے دوہرا اَجر ہے.‘‘ و استہزاء کے مجرم گردانے جائیں اور اس اعراض عن القرآن کی سزا تلاوت کے ثواب سے بڑھ جائے. الاّ یہ کہ وہ قرآن کا علم حاصل کرنے کا عزم کر لیں اور اس کے لیے سعی و جدوجہد شروع کردیں تو درمیانی عرصے میں اگر مجرد تلاوت بھی کرتے رہیں تو امید ہے کہ اس کا اجر انہیں ملتا رہے گا.

پھر ’’فہم قرآن‘‘ کوئی سادہ اور بسیط شے نہیں‘بلکہ اس کے بے شمار مدارج و مراتب ہیں اور ہر انسان علم کے اس اتھاہ و ناپیدا کنار سمندر سے اپنی فطری استعداد‘ ذہنی ساخت‘ طبیعت کی اُفتاد پھر اپنی اپنی سعی و جہد‘ محنت و مشقت‘ کدوکاوش اور تحقیق و جستجو کے مطابق حصہ پا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ کوئی انسان خواہ کیسی ہی اعلیٰ استعداد کا مالک کیوں نہ ہو اور کتنی ہی محنت و کاوش کیوں نہ کر لے‘ پھر چاہے پوری کی پوری عمر قرآن پر تدبر و تفکر میں بسر کر دے‘ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بھی مرحلے پر پہنچ کر وہ سیر ہو جائے اور یہ محسوس کرے کہ قرآن کا فہم کماحقہ ٗ اسے حاصل ہو گیا ہے‘ اس لیے کہ خود صادق و مصدوق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسا خزانہ ہے جس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے اور جس پر غور و فکر سے انسان کبھی فارغ نہ ہو سکے گا. 
(۱وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ پس چاہیے کہ اصحابِ عزم و ہمت اور اربابِ حوصلہ و امنگ اس میدان کو اپنے حوصلوں اور امنگوں کی آماجگاہ بنائیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کریں.

’’سمجھ‘‘ کے لیے یوں تو قرآن مجید نے فہم و فکر اور عقل و فقہ کے قبیل کے تمام ہی الفاظ استعمال کیے ہیں ‘لیکن عجیب بات یہ ہے کہ فہم قرآن کے لیے وسیع ترین اصطلاح 
(۱) حضرت علی رضی اللہ عنی سے مروی ایک طویل حدیث میں قرآن کے بارے میں آنحضور  کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں :
وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ (رواہ الترمذی والدارمی) 

’’ علماء کبھی اس کتاب سے سیر نہ ہو سکیں گے‘ نہ کثرت و تکرارِ تلاوت سے اس کے لطف میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات (یعنی نئے نئے علوم و معارف) کا خزانہ کبھی ختم ہو سکے گا.‘‘ 
جو قرآن میں سب سے زیادہ استعمال ہوئی ہے وہ ذکر و تذکر کی ہے. چنانچہ خود قرآن اپنے آپ کو جابجا ذکر‘ ذکریٰ اور تذکرہ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے. یہ اصطلاح درحقیقت فہم قرآن کی اوّلین منزل کا پتہ بھی دیتی ہے اور اس کی اصل غایت اور حقیقی مقصود کا سراغ بھی اس سے ملتا ہے‘ اور ساتھ ہی اس سے اس حقیقت کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے کہ تعلیماتِ قرآنی نفس انسانی کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہیں بلکہ یہ درحقیقت اس کی اپنی فطرت کی ترجمانی ہے اوراس کی اصل حیثیت ’’یاددہانی‘‘ کی ہے‘ نہ کہ کسی نئی بات کے ’’سکھانے‘‘ کی قرآن تمام ذی شعور انسانوں کو جنہیں وہ’’اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘ اور ’’قَوْمٌ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ قرار دیتا ہے ‘تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے اور اس کا اوّلین میدان خود آفاق و انفس کو قرار دیتا ہے جو آیاتِ الٰہی سے بھرے پڑے ہیں. ساتھ ہی وہ انہیں آیاتِ قرآنی میں بھی تفکر و تعقل کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ :

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (یونس:۲۴)
’’اسی طرح ہم کھولتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں.‘‘

اور فرمایا :
وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (النحل:۴۴)
’’اور اتارا ہم نے تم پر ذکر کہ تم جو کچھ لوگوں کے لیے اتارا گیا ہے اس کی وضاحت کرو ‘تاکہ وہ تفکر کریں.‘‘

اسی طرح :
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۴۲﴾٪ (البقرۃ:۲۴۲)
’’اسی طرح اللہ اپنی آیات کی وضاحت فرماتا ہے تاکہ تم تعقل کر سکو.‘‘

اور :
اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾ (الزخرف:۳)
’’ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر اتارا تاکہ تم اسے سمجھ سکو.‘‘

آیاتِ قرآنی‘ آیاتِ آفاقی اور آیاتِ انفسی میں تفکر و تعقل کے نتیجے میں انسان محسوس کرتا ہے کہ ایک تو ان تینوں میں گہری ہم آہنگی پائی 
جاتی ہے اور دوسرے یہ سب کامل توافق کے ساتھ بعض ایسے حقائق کی جانب رہنمائی کرتی ہیں جن کی شہادت خود اس کی اپنی فطرت میں مضمر ہے. اس طرح اس کے اپنے باطن کی مخفی شہادت اجاگر ہو کر اس کے شعور کے پردوں پر جلوہ فگن ہوتی ہے اور حقیقت نفس الامری کا علم ‘جس کا دوسرا نام ایمان ہے‘ اس کے شعور میں بالکل اس طرح ابھرتا ہے جیسے کسی تحریک کی بنا پر کوئی پرانی بھولی بسری بات انسان کی یادداشت کے ذخیرے کی گہرائیوں سے ابھر کر افق شعور پر طلوع ہوتی ہے اسی عمل (phenomenon) کا نام قرآنی اصطلاح میں ’’تذکر‘‘ ہے. 

اس ’’تذکر‘‘ کی احتیاج ہر انسان کو ہے‘ خواہ وہ عوام الناس میں سے ہو خواہ خواص کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’تذکر‘‘ کے لیے قرآن کو انتہائی آسان بنا دیا ہے اور قرآن کی ایک ہی سورت میں چار مرتبہ یہ فرماکر کہ :
وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ 
(القمر :۱۷‘ ۲۲‘ ۳۲۴۰)
’’ہم نے آسان بنا دیا ہے قرآن کو ذکر کے لیے‘ تو ہے کوئی یاددہانی سے فائدہ اٹھانے والا؟‘‘

ہر انسان پر حجت قائم کر دی ہے کہ خواہ وہ کتنی ہی کم اور کیسی ہی معمولی استعداد کا حامل کیوں نہ ہو‘ فلسفہ و منطق اور علوم و فنون سے کتنا ہی نابلد اور زبان و ادب کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں سے کتنا ہی ناواقف کیوں نہ ہو ‘وہ قرآن سے تذکر کر سکتا ہے‘ بشرطیکہ اس کی طبع سلیم اور فطرت صحیح ہو اور ان میں ٹیڑھ اور کجی راہ نہ پا چکی ہو اور وہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اس کا ایک سادہ مفہوم روانی کے ساتھ سمجھتا چلا جائے.

’’تیسیر قرآن للذکر‘‘ کے متعدد پہلو ہیں. مثلاً ایک تو یہی کہ اس کا اصل موضوع اور اساسی مضامین فطرتِ انسانی کے جانے پہچانے ہیں اور قرآن کو پڑھتے ہوئے ایک سلیم الطبع انسان خود اپنے باطن کی آواز سن رہا ہوتا ہے. دوسرے یہ کہ اس طریق استدلال نہایت فطری اور انتہائی سادہ ہے. مزید یہ کہ مشکل مضامین کو نہایت دل نشین مثالوں کے ذریعے آسان بنا دیا گیا ہے. تیسرے یہ کہ اس کے باوجود کہ یہ ادب کا شاہکار اور فصاحت و بلاغت کی معراج ہے ‘اس کی زبان عام طور پر نہایت آسان ہے اور عربی زبان کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ اور معمولی سا ذوق رکھنے والا شخص بھی بہت جلد اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور بہت ہی کم مقامات ایسے رہ جاتے ہیں جہاں ایسے شخص کو دقت پیش آئے.

لیکن تذکر بالقرآن کے لیے بھی عربی زبان کا بنیادی علم بہرحال ناگزیر ہے اور متن کے ساتھ ساتھ قرآن کے کسی مترجم نسخے میں ترجمہ دیکھتے رہنا اس مقصد کے لیے قطعاً ناکافی ہے اور میں پوری دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ عربی کی اس قدر تحصیل کہ انسان قرآن مجید کا ایک رواں ترجمہ ازخود سمجھ سکے اور تلاوت کرتے ہوئے بغیر متن سے نظر ہٹائے اس کے سرسری مفہوم سے آگاہ ہوتا چلا جائے‘ ہر پڑھے لکھے مسلمان کے لیے فرضِ عین کا درجہ رکھتا ہے.

اور میں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسا مسلمان جس نے کچھ بھی پڑھا لکھا ہو‘ کجا یہ کہ غیرملکی زبان تک سیکھی ہو‘ بی اے اور ایم اے پاس کیا ہو‘ ڈاکٹری اور انجینئرنگ جیسے مشکل علوم و فنون حاصل کیے ہوں ‘وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اتنی سی عربی بھی نہ سیکھ سکنے پر کیا عذر پیش کر سکے گا جس سے وہ اس کے کلام پاک کا فہم حاصل کرسکتا حضرات! میں پورے خلوص اور خیرخواہی کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا عربی سیکھ کر قرآن کا فہم حاصل کرنے سے باز رہنا اللہ کے کلام کا تمسخر اور استہزاء ہی نہیں بلکہ اس کی تحقیر و توہین ہے اور آپ خود سوچ لیں کہ اپنے اس طرزِعمل سے ہم اپنے آپ کو اللہ کی کیسی شدید بازپُرس اور کتنی سخت عقوبت کا مستحق بنا رہے ہیں ! 
میرے نزدیک عربی زبان کی کم از کم اتنی تحصیل کہ قرآن مجید کا سرسری مفہوم انسان کی سمجھ میں آ جائے ‘ہر پڑھے لکھے مسلمان پر قرآن کا وہ حق ہے جس کی عدم ادائیگی نہ صرف قرآن بلکہ خود اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم ہے.

فہم قرآن کا دوسرا مرتبہ ’’تدبر قرآن‘‘ کا ہے. یعنی یہ کہ قرآن کو گہرے غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور اس کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کی کوشش کی جائے. اس لیے کہ قرآن 
’’ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے اور جس طرح عوام کو کائنات اور اپنی ذات کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اور زندگی بسر کرنے کی واضح ہدایات عطا فرماتا ہے اسی طرح خواص اور اصحاب ِ علم و فکر کے لیے بھی کامل ہدایت اور مکمل رہنمائی ہے اور ان کے ذہنی و فکری سفر کے ہر مرحلے اور ہر موڑ پر ان کی دستگیری فرماتا ہے.

قرآن نے اپنے محلِ تدبر ہونے کو بایں الفاظ خود واضح فرمایا ہے کہ :
کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (صٓ:۲۹)
’’(یہ قرآن) ایک کتابِ مبارک ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور سمجھ دارلوگ نصیحت حاصل کریں.‘‘

اور عدم تدبر کا گلہ ان الفاظ میں کیا ہے :
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ (النساء : ۸۲)

’’ کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے؟‘‘

اور 

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾ (محمد :۲۴)
’’ کیا یہ تدبر نہیں کرتے قرآن پر؟ یا دلوں پر لگے ہوئے ہیں ان کے قفل؟‘‘

’’تذکر‘‘ کے اعتبار سے قرآن مجید جس قدر آسان ہے واقعہ یہ ہے کہ ’’تدبر‘‘ کے نقطہ نظر سے یہ اسی قدر مشکل ہے اور اس سمندر میں اترنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس کی گہرائیوں کا اندازہ ممکن ہے اور نہ اس کے کناروں ہی کا سراغ کسی کو مل سکتا ہے. صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اس امر کی تصریح ملتی ہے کہ وہ 
ایک ایک سورت پر تدبر و تفکر میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے‘ حتیٰ کہ ان ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جن کو آنحضور نے ہفتے میں ایک بار ضرور قرآن مجید ختم کر لینے کی تاکید کی تھی‘ یہ تصریح ملتی ہے کہ انہوں نے صرف سورۃ البقرۃ پر تدبر میں آٹھ سال صرف کیے. ذرا غور فرمائیں کہ یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کی اپنی زبان میں اور اپنی آنکھوں کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا. چنانچہ نہ تو انہیں عربی زبان اور اس کے قواعد کی تحصیل کی کوئی ضرورت تھی نہ شانِ نزول اور سُور و آیات کے تاریخی پس منظر کو جاننے کے لیے کھود کرید کی کوئی حاجت. اس کے باوجود ایک ایک سورت پر ان کا سالہا سال غور و فکر کرنا یہ بتلاتا ہے کہ قرآن حکیم کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کوئی آسان کام نہیں‘ بلکہ اس کے لیے سخت محنت اور شدید ریاضت کی ضرورت ہے. چنانچہ بعد میں ابن جریر طبری‘ علامہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی ایسے دسیوں بیسیوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں کھپائیں تب بھی کسی ایک ہی پہلو سے قرآن حکیم پر غور و فکر کر سکے اور حق یہ ہے کہ حق پھر بھی ادا نہ ہوا اور ان چودہ صدیوں میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں گزرا جس نے ضخیم سے ضخیم تفسیر لکھنے کے بعد بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہو کہ اس نے قرآن حکیم پر تدبر کا حق ادا کر دیا اور اس کا فہم کماحقہ حاصل کر لیا تابہ دیگراں چہ رسد؟

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں کسی عارف کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے قرآن کی عام تلاوت برائے تذکر اور اس پر گہرے غور و فکر کا فرق معلوم ہوتا ہے. وہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک ختم تو قرآن مجید کا ہر جمعہ کو کر لیتا ہوں‘ ایک ختم میں ماہانہ کرتا ہوں اور ایک سالانہ‘ اور ایک اور ختم بھی ہے جس میں میں تیس سال سے مشغول ہوں اور تاحال فارغ نہیں ہو سکا.

قرآن کو بطریق تدبر پڑھنے کی شرائط بڑی کڑی ہیں اور ان کا پورا کرنا اس کے بغیر ہرگز ممکن نہیں کہ ایک انسان اپنے آپ کو بس اسی کے لیے وقف کر دے اور اپنی پوری زندگی کا مصرف صرف تعلیم و تعلم قرآن ہی کو بنا لے. اس کے لیے اوّلاً عربی 
زبان کے قواعد کا گہرا اور پختہ علم ضروری ہے. پھر اس کے ادب کا ایک ستھرا ذوق اور فصاحت و بلاغت کا عمیق فہم لازمی ہے. اس پر مستزاد یہ کہ جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے اس کا صحیح فہم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ادبِ جاہلی کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور دورِ جاہلی کے شعراء و خطباء کے کلام سے ممارست بہم پہنچائی جائے. پھر اسی پر بس نہیں‘ قرآن نے خود اپنی مخصوص اصطلاحات وضع کی ہیں اور اپنے خاص اسالیب ایجاد کیے ہیں جن سے انسان ایک طویل مدت تک قرآن کو پڑھتے رہنے اور اس پر غور کرتے رہنے کے بعد ہی مانوس ہوتا ہے اس کے علاوہ نظم قرآن کا فہم بجائے خود تدبر قرآن کی راہ کی ایک کٹھن منزل ہے اور مصحف کی موجودہ ترتیب کی حکمت کا علم جو ترتیب نزولی سے قطعاً مختلف ہے‘ اور اوّلاً مختلف سورتوں اور پھر ہر سورت کی آیتوں کے باہمی ربط و تعلق کو سمجھنا ایسا مشکل مرحلہ ہے جس پر بڑے بڑے اصحابِ عزم و ہمت تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں.

لیکن ظاہر ہے کہ اس مرحلے کو سر کیے بغیر ’’ تدبر قرآن‘‘ کے حق کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اسی معدن سے قرآن حکیم کے علم و حکمت کے اصل موتی حاصل ہوتے ہیں اور اسی سے اس بحرِ ناپیدا کنار کی وسعتوں کا اصل اندازہ ہوتا ہے !

ساتھ ہی قرآن کو سمجھنے کے لیے احادیث کے تمام ذخیرے پر انسان کی گہری نظر بھی لازمی ہے اور قدیم صحف آسمانی کا گہرا مطالعہ بھی ضروری ہے. ان ساری منزلوں سے گزر کر تو انسان اس قابل ہوتا ہے کہ قرآن کو بطریق تدبر 
(۱پڑھ سکے. اس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی تاریخ کے ہر دَور میں تجرباتی و عقلی دونوں قسم کے علوم ایک خاص سطح پر ہوتے ہیں اور قرآن پر تدبر کا حق اس کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا کہ حکمت قرآنی کا طالب اپنی معلومات کے دائرے کو کم از کم اتنا وسیع (۱) اس موضوع پر مولانا امین احسن اصلاحی کی تالیف ’’مبادیٔ تدبر قرآن‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید رہے گا. ضرور کرے کہ ان تمام علوم طبعی و نظری کا ایک اجمالی خاکہ ان کے مقدمات و مبادی‘ طریق استدلال اور نہج استنتاج اور نتائج و عواقب کی اجمالی معرفت سمیت اس کے ذہن کی گرفت میں آ جائے اس لیے کہ قرآن مجید کے علم و حکمت کے بحر زخار سے ہر طالب بہرحال اپنے ’’ظرفِ ذہنی‘‘ کے عمق اور وسعت کے مطابق ہی حصہ پا سکتا ہے اور اس کتابِ منیر کا نورِ ہدایت ہر شخص پر اس کے ’’افق فکر و نظر‘‘ کی وسعت کی نسبت ہی سے روشن ہو سکتا ہے اور انسان کا ظرفِ ذہنی اور افق فکری بہرحال متداول علوم طبعی و عقلی ہی سے تیار ہوتا ہے.

خاص طور پر تبلیغ و تبیین للناس کے اعتبار سے تو اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے‘ بلکہ اس کے بغیر ان کا حق ادا ہونا تو کسی درجے میں بھی ممکن نہیں‘ اس لیے کہ ہر دَور کے تجرباتی علوم کی سطح کے مطابق اور اسی کی مناسبت سے منطق و فلسفہ‘ الٰہیات و مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات و نفسیات اور دیگر علومِ عمرانی کا ایک طومار ہوتا ہے جس سے ذہن بالعموم مرعوب ہوتے ہیں. ان کے پھیلائے ہوئے غلط افکار و نظریات کا توڑ اس کے بغیر قطعاً ممکن نہیں ہوتا کہ خود ان کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور ان کے اصل سرچشموں 
(Original Sources) تک رسائی بہم پہنچا کر علیٰ وجہ البصیرت ان کی جڑوں پر اسی طرح ضربِ کاری لگائی جائے جس طرح اپنے اپنے وقت میں امام ابن تیمیہ اور امام غزالی رحمہما اللہ لگا چکے ہیں. دورِ جدید اس معاملے میں غالباً اپنی منطقی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور علومِ متذکرہ بالا کے علاوہ علومِ طبعی (Physical Sciences) اور فنونِ صنعتی (Technology) نے انتہائی بلندیوں کو چھو کر عقلِ انسانی کو اس طرح مبہوت و ششدر کر دیا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے ان کے جلو میں آنے والے غلط نظریات و افکار پر جرح و تنقید قطعاً ناممکن ہو گئی ہے اندریں حالات‘ دورِ حاضر میں ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ اصحابِ ہمت اور اربابِ عزیمت کی یک بڑی جماعت اپنے آپ کو پوری طرح کھپا کر ایک طرف تدبر قرآن کی متذکرہ بالا جملہ شرائط کو پورا کرے اور دوسری طرف جدید علومِ عقلی و عمرانی کی گہری و براہِ راست ممارست بہم پہنچائے ‘اور پھر نہ صرف یہ کہ قرآن کی روشنی میں علومِ جدیدہ کے صحیح و غلط اجزاء کو بالکل علیحدہ کر دے ‘بلکہ جدید استدلال اور معروف اصطلاحات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کے قریب ہو کر کلام کرے اور قرآن کے نورِ ہدایت کو لوگوں کی نگاہوں کے عین سامنے روشن کر دے! 

تاکہ ’’لِتُبَـیِّنَہٗ لِلنَّاسِ‘‘ کا جو فریضہ آنحضور نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ادا فرمایا تھا وہ اس دور میں آپ کی اُمت کے ذریعے پھر پورا ہو اور یہ کام ظاہر ہے کہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عالم اسلام میں جابجا ایسی یونیورسٹیاں قائم نہ ہوں جن میں سے ہر ایک کا اصل مرکزی شعبہ ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا ہو اور اس کے گرد تمام علومِ عقلی‘ جیسے منطق‘ مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات‘ نفسیات اور الٰہیات‘ علومِ عمرانی جیسے معاشیات‘ سیاسیات اور قانون اور علومِ طبعی جیسے ریاضی‘ کیمیا‘ طبیعیات‘ ارضیات اور فلکیات وغیرہ کے شعبوں کا ایک حصار قائم ہو‘ اور ہر ایک طالب علم ’’تدبرِ قرآن‘‘ کی لازماً اور ایک یا اس سے زائد دوسرے علوم کی اپنے ذوق کے مطابق تحصیل کرے اور اس طرح ان شعبہ ہائے علوم میں قرآن کے علم و ہدایت کو تحقیقی طور پر اخذ کر کے مؤثر انداز میں پیش کر سکے.

ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں! اسی لیے اس پر ہر شخص مکلف بھی نہیں. یہ کام اوّل تو ہے ہی صرف ان لوگوں کے کرنے کا جو علم کی ایک فطری پیاس لے کر ہی پیدا ہوتے ہیں اور جن کے ذہنوں میں ایسے سوالات ازخود پیدا ہو جاتے ہیں جن کا حل عقل کی جملہ وادیاں طے کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا. یہ لوگ طلب علم پر اسی طرح ’’مجبور‘‘ ہوتے ہیں جیسے ایک بھوکا تلاشِ غذا پر یا ایک پیاسا تحصیل ماء پر. ایسے ہی لوگ مسلسل 
’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ کی دعا کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں‘ اور اگر صحیح رہنمائی میسر آجائے تو علم وحکمت سے حصہ وافر پاتے ہیں. ’’تدبر قرآن‘‘ اصلاً تو ایسے ہی لوگوں کے کرنے کا کام ہے‘ ویسے ہر ’’طالب علم‘‘ اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی محنت کے مطابق اس سے فیض یاب ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ایک عام تشویق ہی کے لیے آنحضور نے فرمایا :

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ 
(صحیح البخاری‘ عن عثمان بن عفانؓ ) 

’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھتے اور سکھاتے ہیں.‘‘
اور قرآن حکیم نے ایک عام ہدایت دی کہ :

فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ (التوبہ:۱۲۲)
’’پس کیوں نہیں نکلتا ہر ہر فرقے میں سے ان کا ایک گروہ تاکہ سمجھ پیدا کرے دین میں.‘‘

یہ 
’’ تفقّہ فی الدِّین‘‘ تدبرِ قرآن کا وہ ثمرہ ہے جس کے لیے آنحضور نے چیدہ چیدہ صحابہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی ہے (۱اور جس کا آپ نے خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِکے کلیہ کے ساتھ بطورِ شرط تذکرہ فرمایا ہے‘ یعنی یہ کہ اِذَا فَقُھُوْا (۲(۱) جیسے مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے لیے حضور نے ان الفاظ میں دعا فرمائی :
اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ

(۲) متفق علیہ‘ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ . ترجمہ حدیث : ’’ان میں سے جو لوگ دورِ جاہلیت میں سب سے اچھے تھے وہی اسلام میں بھی سب سے اچھے ہیں‘ بشرطیکہ دین کی سمجھ حاصل کر لیں.‘‘