’’ایمان و تعظیم‘‘ ’’تلاوت و ترتیل‘‘ اور ’’تذکر و تدبر‘‘ کے بعد قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے. اور ظاہر ہے کہ ماننا‘ پڑھنا اور سمجھنا‘ سب فی الاصل عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں. اس لیے کہ قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا جنتر منتر کی کتاب ہے جس کا پڑھ لینا ہی دفعِ بلیات کے لیے کافی ہو‘ نہ یہ محض حصولِ برکت کے لیے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب حاصل کر لیا جائے یا اس کے ذریعے جان کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے. (۱اور نہ ہی یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضت ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولانگاہ بنا لیا جائے بلکہ‘ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی انسانوں کے لیے رہنمائی ہے ‘اور اس کا مقصد نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے واقعتا اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنا لیں.
یہی وجہ ہے کہ خود قرآن حکیم اور اُس ذاتِ اقدس نے جس پر یہ نازل ہوا ( ) اس بات کو بالکل واضح فرما دیا ہے کہ قرآن پر عمل نہ کیا جائے تو اس کی تلاوت یا اس پر غور و فکر کے کچھ مفید ہونے کا کیا سوال‘ خود ایمان ہی معتبر نہیں رہتا. چنانچہ قرآن مجید نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ :

وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ (المائدۃ:۴۴)
’’اور جو فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق کہ جو اللہ نے نازل فرما یا تو ایسے ہی لوگ تو کافر ہیں.‘‘

اور آنحضرت  نے مزید وضاحت فرما دی کہ : 
(۱)بآیا تش ترا کارے جز ایں نیست 
کہ از یٰسینِ اُو آساں بمیری! (علامہ اقبال) 
۱) لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ (شرح السنۃ،علامہ بغوی)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں.‘‘

۲) مَا اٰمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ (رواہ الترمذی)
’’جو شخص قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرائے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا.‘‘

ایک ایسے شخص کا معاملہ تو مختلف ہے جو ابھی تلاشِ حق میں سرگرداں ہو اور قرآن کو پڑھ اور سمجھ کر ابھی اس کی حقانیت کے عدم یا اثبات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو‘ لیکن جو لوگ قرآن کو کتابِ الٰہی تسلیم کریں ان کے لیے اس سے استفادے کی شرطِ لازم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے رُخ کوقرآن کی سمت میں عملاً موڑ دینے اور اس کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کی حتی الامکان سعی کے عزمِ مصمم کے بعد قرآن کو پڑھیں. چاہے اس میں انہیں کیسے ہی کسر و انکسار‘ ترک و اختیار اور قربانی و ایثار کے ساتھ سابقہ پیش آئے. بلکہ جیسا کہ اس سے قبل ’’تلاوت‘‘ کے لغوی مفہوم کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت تامہ تو درحقیقت ’’منکشف‘‘ ہی صرف ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر کے اس کا مطالعہ کریں اس عزمِ صادق کے بعد بھی ایک طویل مجاہدے اور کٹھن ریاضت کے بعد ہی نفس انسانی میں تسلیم و انقیاد کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو آنحضور کے اس قولِ مبارک میں بیان ہوئی جو ابھی میں نے آپ کو سنایا تھا. یعنی :

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں.‘‘

نفس انسانی میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا قرآن کی ’’ہدایت تامہ‘‘ کا نقطۂ آغاز ہے. پھر جوں جوں اس کتابِ ہدایت سے تمسک بڑھتا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے. 

وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ ﴿۱۷﴾ (محمد :۱۷’’اور جو لوگ راہ یاب ہوئے تو ان کو مزید عطا ہوئی سوجھ‘ اور نصیب ہوئی پرہیزگاری.‘‘

یعنی انسان قرآن کی انگلی پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش عملاً شروع کردے تو صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائے گا 
اور درجہ بدرجہ رشد و ہدایت میں ترقی کرتا چلا جائے گا ورنہ اس کی تلاوت صرف وقت کا ضیاع ہی نہ ہو گی بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے لیے موجب لعنت ہو. جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں بعض عارفین کا قول نقل فرمایا کہ قرآن کے بہت سے پڑھنے والے ایسے ہیں جنہیں سوائے لعنت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا. اس لیے کہ جب وہ پڑھتا ہے کہ : لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ یعنی اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر‘ تواگر وہ خود جھوٹا ہے تو یہ لعنت اسی پر ہوئی! اسی طرح جب ایک قاری تلاوت کرتاہے کہ :
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ (البقرۃ : ۲۷۹)
’’اور اگر ایسے نہیں کرتے تو تیار ہو جائو لڑنے کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ سے.‘‘
تو اگر وہ خود اس حکم الٰہی سے سرتابی کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ کے اس ’’اذانِ حرب‘‘ 
(ultimatum) کا مخاطب خود وہی ہوا. اسی طرح کم تولنے اور تھوڑا ناپنے والے‘ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے اور رو‘در رو طعنہ دینے والے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ اور وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ کی دردناک ’’بشارتوں‘‘ کے مصداق خود ہی بنتے ہیں اسی پر مزید قیاس کر لیجئے کہ عمل کے بغیر قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کو درحقیقت کیا حاصل ہوتا ہے.
رہا ان لوگوں کا معاملہ جو قرآن حکیم پر تحقیق و تدقیق‘ غور و فکر اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے ہوں‘ لیکن خود اس کے تقاضوں کی ادائیگی سے غفلت برتیں تو ان کا معاملہ تو سب سے بڑھ کر سنگین ہو جاتا ہے اور ان کی یہ ساری کدوکاوش اور تحقیق و جستجو صرف ذہنی عیاشی ہی نہیں 
’’تلعّب بالقرآن‘‘ یعنی ؏ ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی!‘‘ کے مصداق قرآن کے ساتھ کھیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے. نتیجتاً ان کے اپنے حصے میں بھی قرآن سے ہدایت نہیں ضلالت آتی ہے.

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا (البقرۃ : ۲۶)
’’گمراہ کرتا ہے (اللہ تعالیٰ) اس سے بہت سوں کو اور ہدایت دیتا ہے اس کے ذریعے بہت سوں کو.‘‘

اور خلق خدا کے لیے بھی یہ طرح طرح کے فتنوں کا باعث اور نت نئی گمراہیوں اور ضلالتوں کا سبب بنتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کا سارا ’’قرآنی فکر‘‘ اس آیت قرآنی کا مصداق بن جاتا ہے کہ :

فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ (آلِ عمران : ۷)
’’تو وہ پیچھے پڑتے ہیں متشابہات کے تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت و ماہیت معلوم کریں.‘‘

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جنہیں ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا خاص ذوق عطا ہوا تھا اور جو کئی کئی برس ایک ایک سورت پر غور و فکر اور تدبرو تفہم میں صرف کر دیتے تھے ان کے بارے میں یہ تصریح ملتی ہے کہ ان کے اس توقف کا اصل سبب یہ ہوتا تھا کہ وہ قرآن کے علم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ اس پر پورے پورے عمل کا بھی حتی المقدور اہتمام کرتے تھے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک انہیں یہ اطمینان نہیں ہو جاتا تھا کہ جتنا کچھ انہوں نے سیکھا اور پڑھا ہے اس پر عمل کی توفیق بھی انہیں حاصل ہو گئی ہے آپ شایدیہ معلوم کر کے حیران ہوں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کی کسی سورت یا اس کے کسی حصے کے حفظ کا مطلب صرف یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اسے یاد کر لیا جائے‘ بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علم و فہم بھی حاصل ہو جائے اور اس پر عمل کی توفیق بھی بارگاہِ ربّ العزت سے ارزانی ہو جائے اور اس طرح قرآن ان کے فکر و عمل دونوں پر حاوی ہو جائے.

گویا ’’حفظ قرآن‘‘ کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ قرآن ان کی پوری شخصیت میں رچ بس جائے اور اس کا نورِ ہدایت ان کے 
رگ و پے حتیٰ کہ ریشے ریشے میں سرایت کر جائے. نتیجتاً اس کے الفاظ ان کے حافظے میں‘ اس کا علم ان کے ذہن میں‘ اور اس کی تعلیمات ان کے اخلاق و عادات اور سیرت و کردار میں محفوظ ہو جائیں ! (۱)

اسی عمل (phenomenon) کی تکمیل اور اتمامی کیفیت کا ذکر ہے معلمہ اُمت‘ اُم المؤمنین حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے اس غایت درجہ حکیمانہ قول میں جو انہوں نے اس سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ آنحضور کی سیرت کیسی تھی؟ کہ : ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘‘ یعنی آپ کی سیرت تعلیماتِ قرآنی کا مکمل نمونہ تھی اور گویا کہ آپ مجسم قرآن تھے. فداہ ابی واُمی و صلی اللہ علیہ وسلم.

غرضیکہ قرآن سے استفادے کی صحیح صورت صرف یہ ہے کہ اس کا جتنا جتنا علم و فہم انسان کو حاصل ہو اُسے وہ ساتھ کے ساتھ اپنے اعمال و افعال‘ عادات و اطوار اور سیرت و کردار کا جزو بناتا چلا جائے اور اس طرح قرآن مجید مسلسل اس کے ’’خُلق‘‘ میں سرایت کرتا چلا جائے. بصورتِ دیگر اس کا خدشہ ہے کہ نبی اکرم کے اس قو ل (۱) ملاحظہ ہو ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ کی مندرجہ ذیل روایت (بحوالہ مبادیٔ تدبر قرآن. مؤلفہ مولانا امین احسن اصلاحی)
وقد قال ابوعبد الرحمٰن السلمی حدثنا الذین کانوا یقرء ون القرآن کعثمان بن عفان و عبداللّٰہ بن مسعود وغیرھما انھم اذا کانوا تعلموا من النبی  عشر آیات لم یتجا وزوھا حتی یعلموا مافیھا من العلم والعمل‘ قالوا فتعلمنا القرآن والعمل جمیعًا ولھذا کانوا یبقون مدۃ فی حفظ السورۃ 

’’ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ مجھ سے ان لوگوں نے بیان کیا جو قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے‘ جیسے حضرت عثمانؓ بن عفان اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ کہ ان لوگوں کا دستور یہ تھا کہ اگر نبی  سے دس آیتیں بھی پڑھ لیتے تھے تو جب تک ان آیات کے تمام علم و عمل کو اپنے اندر جذب نہ کر لیتے آگے قدم نہ بڑھاتے. انہوں نے کہا کہ ہم نے قرآن کے علم و عمل دونوں کو ایک ساتھ حاصل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک ایک سورت کے حفظ میں وہ برسوں لگا دیا کرتے تھے.‘‘ مبارک کے مطابق کہ اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَیْکَ (قرآن یا تو تمہارے حق میں حجت بنے گا یا تمہارے خلاف) قرآن کا علم و فہم الٹا انسان کے خلاف حجت قاطع اور اس کی بدعملی پر سزا و عقوبت کی شدت میں اضافے کا سبب بن جائے. 
یہاں یہ وضاحت البتہ ضروری ہے کہ ’’عمل بالقرآن‘‘ کے دو پہلو ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی. قرآن مجید کے ایسے تمام احکام جو انسان کی انفرادی و نجی زندگی سے متعلق ہوں یا جن پر عمل کا اختیار اسے فی الفور حاصل ہو اُن کو بجا لانے پر ہر انسان اسی دم مکلف ہو جاتا ہے جس دم وہ اس کے علم میں آئیں اور ان کے معاملے میں تاخیر و تعویق کا کوئی جواز سرے سے موجود نہیں ہے.ایسے احکام کی اطاعت و تعمیل میں کوتاہی وہ جرمِ عظیم ہے جس کی سب سے بڑی سزا خذلان اور سلب توفیق کی شکل میں ملتی ہے ‘حتیٰ کہ قول و کردار اور علم و عمل کا یہ فرق و تفاوت اور 
لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (۱کی یہ کیفیت بالآخر نفاق پر منتج ہوتی ہے. یہی حقیقت ہے جو آنحضور کے اس قولِ مبارک میں بیان ہوئی کہ :

اَکْثَرُ مُنَافِقِیْ اُمَّتِیْ قُرَّاءُ ھَا (مسند احمد)
’’میری اُمت کے منافقین کی سب سے بڑی تعداد قراء (۲کی ہے.‘‘

لہذا سلامتی کی راہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا جس قدر علم بھی انسان کو حاصل ہو اس پر وہ حتی الامکان فوری طور پر عمل شروع کر دے.

رہے دوسری قسم کے احکام‘ یعنی وہ جو ایسے اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں جن پر ایک فرد کو کلی اختیار حاصل نہیں ہوتاتو ان کے بارے میں ظاہر ہے کہ ہر شخص بجائے خود مسئول و مکلف نہیں ہوتا. اگرچہ وہ اس پر ضرور مکلف ہے کہ اپنی امکانی حد تک حالات کو بدلنے اور ایسا اجتماعی ماحول برپا کرنے کی سعی و جہد کرے جس میں پورے کا پورا قرآن سمویا جا سکے اور اس کے تمام احکام کی مکمل تنفیذ کی جا سکے. ان حالات میں 
(۱) سورۃ الصف آیت ۲ : ’’اے اہل ایمان‘ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘

(۲) واضح رہے کہ یہاں قراء سے مراد معروف معنی میں محض قاری نہیں‘ بلکہ ان میں وہ عالم بھی شامل ہیں جو قرآن پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے ہوں لیکن اس پر عمل نہ کریں. 
اس کی یہ کوشش اور جدوجہد ’’مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ ‘‘ (۱اور ان اجتماعی احکامات کی بالفعل تعمیل کی قائم مقام ہو جائے گی. لیکن اگر انسان ایسی جدوجہد بھی نہ کرے اور مطمئن ہو کر بس اپنی زندگی کی بقاء اور اپنے بال بچوں کی پرورش میں لگا رہے تو اس صورت میں سخت خطرہ ہے کہ قرآن کے انفرادی و نجی نوعیت کے احکام پر عمل بھی اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ (۲کے مصداق گردانا جائے!
جس طرح فہم قرآن کے لیے قرآن مجید کی وسیع تر اصطلاح ’’تذکر‘‘ ہے اسی طرح قرآن پر ’’عمل‘‘ کے لیے قرآن کی سب سے جامع اور کثیرالاستعمال اصطلاح 
’’حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ ہے. 

’’حکم‘‘ کے ذیل میں قرآن مجید نے اصل الاصول تو یہ متعین کیا کہ : 

(۱) سورۃ الاعراف آیت ۱۶۴ : ’’اور جب کہا ان میں سے ایک گروہ نے کہ کیوں نصیحت کرتے ہوایسے لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک یا شدید عذاب میں مبتلا کر کے رہے گا ‘تو انہوں نے جواب دیا : تاکہ پروردگار کے یہاں ہمارا عذر قبول ہو. اور (پھر) کیا عجب کہ وہ (خدا سے) ڈر ہی جائیں.‘‘

(۲) سورۃ البقرۃ آیت ۸۵ :’’تو کیا تم ایمان رکھتے ہو کتابِ الٰہی کے کچھ حصے پر اور کفر کرتے ہو دوسرے سے؟‘‘ ان الفاظِ مبارکہ کے بعد جو تہدید قرآن میں وارد ہوئی ہے اس کو پڑھتے ہوئے ہر صاحب دل انسان لازماً کانپ اٹھتا ہے. لیکن افسوس کہ ہم نے بعینہٖ یہی روش اختیار کی اور نتیجتاًاسی تہدید کا ایک عملی مظہر بن کر رہے یعنی یہ کہ :
’’تو جوکوئی تم میں سے یہ روش اختیار کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں اسے ذلیل و رسوا کیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے‘‘ 

توجہاں تک دنیا کی رسوائی کا تعلق ہے اس کا تو ایک عبرتناک نقشہ اُمت مسلمہ پیش کر رہی ہے. رہا عذابِ اُخروی ‘تو اس کے بھی حق دار بننے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی. ویسے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دستگیری فرما لے تو دوسری بات ہے :

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾ (المائدۃ:۱۱۸)
اللہ اکبر! کیسی صادق آتی ہے ہمارے حال پر آنحضور کی یہ حدیث مبارک کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ (مسلم : عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)
’’اللہ تعالیٰ اس کتابِ عزیز کی وجہ سے کچھ قوموں کو عزت وسربلندی عطا فرمائے گا اور دوسروں کو ذلت ونکبت سے ہم کنار کرے گا.‘‘

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ’’ہم‘‘ خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ (الانعام : ۵۷‘ یوسف : ۴۰ و ۶۷
’’حکم (کا اختیار) سوائے اللہ کے اور کسی کو حاصل نہیں.‘
‘ 
پھر خود قرآن مجید کو ’’حکم‘‘ قرار دیا :
وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ حُکۡمًا عَرَبِیًّا ؕ (الرعد : ۳۷
’’اور اسی طرح اتارا ہم نے اسے حکم بنا کر عربی زبان میں.‘‘

اور نبی اکرم کا فرضِ منصبی یہ قرار دیا کہ :
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ (النساء : ۱۰۵)
’’بے شک اتاری ہم نے تجھ پر کتاب حق کے ساتھ تاکہ تو فیصلہ کرے لوگوں کے مابین اس سوجھ کے ساتھ جو اللہ نے تجھ کو عطا فرمائی ہے.‘‘

اور سورۃ المائدۃ میں دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ جو لوگ اللہ کی کتاب کے مطابق ’’حکم‘‘ نہ کریں وہی کافر‘ ظالم اور فاسق ہیں . 
(آیات ۴۴‘ ۴۵‘ ۴۶ اور ۴۷)

’’حکم‘‘ کا مفہوم ایک لفظ میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ لفظ ’’فیصلہ‘‘ ہی ہوسکتا ہے. لیکن اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات پیش نظر رہے کہ انسان میں اصل اہمیت کی چیزیں دو ہیں‘ ایک اس کا فکر اور دوسرے اس کاعمل. ’’حکم‘‘ ایک ایسی جامع اصطلاح ہے جو بیک وقت ان دونوں کا احاطہ بھی کرتی ہے اور خاص طور پر ان کے ربط و تعلق کو واضح اور ان کے مقامِ اتصال کو نمایاں کرتی ہے.

کوئی خیال یا نظریہ جب انسانی فکر میں ایسا رچ بس جائے کہ اس کی ’’رائے‘‘ اور ’’فیصلہ‘‘ یعنی ’’حکم‘‘ بن جائے تو اس کا عمل خودبخود اس کے تابع ہو جاتا ہے ! 

اسی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے قرآن حکیم نے عمل بالقرآن کے لیے 
حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی اصطلاح استعمال کی ‘تاکہ یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ قرآن مجید پر عمل درحقیقت اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کا فکر قرآن کے تابع ہو جائے اور قرآن کا بیان کردہ علم حقیقت انسان کے دل اور دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائے.

آسمانی کتابوں پر عمل کے لیے قرآن مجید کی دوسری اصطلاح ’’اقامت‘‘ کی ہے‘ جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا گیا کہ :

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ؕ (المائدۃ : ۶۶)
’’اور اگر وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو‘ اور اس کو جو نازل ہوا اُن کی جانب ان کے ربّ کی طر ف سے‘ تو کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے پاؤں کے نیچے سے بھی.‘‘
اور اس کے متصلاً بعد یہ فیصلہ سنا دیا گیا :

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (المائدۃ : ۶۸)
’’کہہ دو (اے محمد  )!!ے اہل کتاب! جب تک تم تورات‘ انجیل اور جو تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری جانب نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہ کرو تم کسی بنیاد پر نہیں ہو.‘‘

’’حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کا تعلق زیادہ تر افراد کے فکر و عمل سے ہے‘ جبکہ ’’اقامت مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ سے مراد خاص طور پر اس نظامِ عدلِ اجتماعی کا قیام ہے جو کسی اجتماعیت کے شریک افراد اور کسی معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین قسط اور عدل و انصاف پر مبنی ’’توازن‘‘ کا ضامن ہوتا ہے اور جس میں بندھنے کے بعد کسی کے کسی پر ظلم و عدوان اور بغی و طغیان کا امکان باقی نہیں رہتا اور سیاسی جبر (Political repression) اور معاشی استحصال (Economic Exploitation) سب کے دروازے بند ہو جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ سورۃ المائدۃ کی آیت ۶۶ جو ابھی میں نے آپ کو سنائی تھی‘ اس میں ’’اقامت مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کے ثمرات کے طور پر عمومی خوش حالی و فارغ البالی کا تذکرہ خاص طور پر کیا گیا ہے. اس نظامِ عدل و قسط کے قیام کا تذکرہ کمالِ اجمال و غایت ِاختصار کے ساتھ تو سورۃ الحدید کی اس آیت میں ہوا ہے کہ :

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (آیت ۲۵)
’’ہم نے بھیجے اپنے رسول کھلی نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ لوگ سیدھی طرح انصاف پر قائم رہیں!‘‘

لیکن سورۃ الشوریٰ میں اس کا بیان ایسی وضاحت کے ساتھ ہوا ہے کہ اس سے حکم الٰہی اور اقامت ِدین اور ایمان بالکتاب اور قیامِ نظامِ عدلِ اجتماعی کا باہمی ربط و تعلق بالکل واضح ہو جاتا ہے. اس سورت کے دوسرے رکوع میں ایک نہایت حکیمانہ تدریج و ترتیب کے ساتھ اس مضمون کی تفاصیل بیان ہوئی ہیں. چنانچہ سب سے پہلے وہی اصل الاصول بیان ہوا جس کا تذکرہ میں پہلے کر چکا ہوں ‘یعنی یہ کہ حکم کا اصل اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے. چنانچہ آیت نمبر۱۰ میں ارشاد ہوا :
وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ

’’اور جس معاملے میں بھی تمہارے مابین اختلاف ہو اُس کے فیصلے کا حق اللہ ہی کو ہے.‘‘
پھر آیت نمبر۱۳ میں اس حکم الٰہی کے دین و شریعت کی شکل میں ڈھلنے کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ :
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ

’’راستہ مقرر کر دیا تمہارے لیے دین میں وہی جس کا حکم دیا تھا نوح کو اور جو وحی کیا ہم نے(اے نبیؐ ) تیری طرف اور جس کا حکم دیا ہم نے ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ کو‘ کہ قائم رکھو دین اور مت اختلاف میں پڑو اِس کے بارے میں!‘‘
پھر آیت نمبر ۱۵ میں آنحضور  سے خطاب کر کے فرمایا گیا :

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ 
’’پس تو اسی کی دعوت دے اور قائم رہ جیسا حکم ہوا تجھے اور مت پیچھے چل ان کی خواہشوں کے اور کہہ دے کہ میں ایمان لایا اس کتاب پر جو نازل فرمائی ہے اللہ نے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مابین عدل کرو.‘‘
پھر آیت نمبر۱۷ میں اس پوری بحث کا خاتمہ ان جامع الفاظ پر ہوا کہ :

اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ﴿۱۷
’’اللہ ہی تو ہے جس نے اتاری کتابِ کامل حق کے ساتھ اور میزان بھی.اور تجھے کیا خبر‘ شاید قیامت قریب ہی ہے.‘‘

سورۃ الحدید کی متذکرہ بالا آیت کی طرح سورۃ الشوریٰ کی اس آیت میں بھی کتاب کے ساتھ ’’میزان‘‘ کا لفظ بھی وارد ہوا ہے. اس کی تشریح میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بڑی جامع بات فرمائی ہے کہ :

’’اللہ نے مادی ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں‘ اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں اور اخلاقی ترازو بھی جسے صفت عدل وانصاف کہا جاتا ہے‘ اور سب سے بڑی ترازو دین حق ہے جو خالق اور مخلوق کے حقوق کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتا ہے اور جس میں بات پوری تلتی ہے‘ نہ کم نہ زیادہ!‘‘

قرآن مجید تشتّت و انتشار اور افتراق و اختلاف کا اصل سبب 
’’بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ‘‘ کو قرار دیتا ہے‘ چنانچہ سورۃ الشوریٰ کے اس دوسرے رکوع میں بھی ’’وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ‘‘ کے تاکیدی حکم کے بعد آیت نمبر ۱۴ میں تفرقہ و انتشار کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے :

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ 
’’اور نہیں تفرقے میں پڑے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس ’العلم‘ پہنچ چکا‘ ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کی غرض سے.‘‘

دین حق اور اللہ کی نازل کردہ کتاب اور میزان کی اقامت سے اس بغی و طغیان کی 
تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں‘ پھر نہ احبار اور رہبان کے لیے موقع رہتا ہے کہ وہ ’’اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ‘‘ بن کر بیٹھ سکیں‘ نہ سرمایہ ’’دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ‘‘ (۱کی صورت اختیار کر سکتا ہے‘ نہ ہی کسی سیاسی جبر و استبداد کا موقع باقی رہتا ہے‘ بلکہ تمام انسان اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاتے ہیں اور ان کے اولواالامر کا فرض یہ قرار پاتا ہے کہ وہ ہر ضعیف کو قوی سمجھیں جب تک اسے اس کا حق نہ دلوا دیں اور ہر قوی کو ضعیف سمجھیں جب تک اس سے حق وصول نہ کر لیں ’’اقامۃ مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کے ذریعے ایسے عادلانہ و منصفانہ نظامِ اجتماعی کا قیام کتابِ الٰہی کے ماننے والوں کا وہ فرض ہے جس پر وہ بحیثیت مجموعی مکلف ہیں اور جس کے بارے میں جواب دہی کی فکر انہیں کرنی چاہیے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ الشوریٰ میں اس سلسلۂ مضمون کے آخر میں یہ فرما کر کہ کیا عجب کہ قیامت قریب ہی ہو‘ متنبہ کر دیا گیا ہے کہ کتاب اور میزان کے حقوق کی ادائیگی کی جلد فکر کرو‘ ایسا نہ ہو کہ تم لیت و لعل اور تاخیر و تعویق ہی میں پڑے رہو اور آخری حساب کتاب کی گھڑی اچانک آن کھڑی ہو. اور اللہ کی کتاب اور میزان کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ بفحوائے لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ اور وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ اس نظامِ عدلِ اجتماعی کو عملاً قائم کر دیا جائے جو اللہ نے دین و شریعت کی صورت میں عطا فرمایا ہے.

پوچھا جا سکتا ہے کہ کتابِ الٰہی کے اس حق کی ادائیگی کے لیے کیا عملی تدبیر اختیار کی جائے؟ تو اگرچہ یہ موضوع میری اس وقت کی گفتگو سے براہِ راست متعلق نہیں تاہم یہ اشارہ مناسب بلکہ ضروری ہے کہ اقامت ِدین اور قیام نظامِ عدلِ قرآنی کی جدوجہد کو دنیا کی کسی دوسری سیاسی‘ معاشی یا معاشرتی تحریک پر قیاس کرنا نہایت غلط اور اس کا عملی نقشہ کسی دوسری تحریک سے اخذ کرنا سخت مضر ہی نہیں انتہائی مہلک ہے. جس طرح ایک فرد میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے قرآن کو اس کے دل و دماغ میں اتارا جائے تاکہ اس کا ذہن و فکر اور جذبات و احساسات سب 
(۱) سورۃ الحشر‘ آیت ۷ : ’’تمہارے دولت مندوں ہی کے مابین الٹ پھیر میں.‘‘ قرآن کے تابع ہو جائیں‘ نتیجتاً اس کا عمل ازخود قرآن کے تابع ہو جائے گا‘ اسی طرح کسی ہیئت اجتماعی میں بھی اسلامی انقلاب صرف اس طرح برپا کیا جاسکتا ہے کہ پہلے اس کے ذہین اور سوچنے اور سمجھنے والے طبقات کے قلوب و اذہان نورِ قرآن سے منور ہوں اور ان کے ’’فکر و نظر‘‘ میں قرآنی انقلاب برپا ہو جائے. کسی ہیئت اجتماعیہ کے اصحابِ علم و فکر کے طبقے میں ایمان اور یقین کا ایک مضبوط مرکز (nucleus) قائم ہو جائے تو پھر اس سے نورِ ایمان اور بصیرتِ دینی ان دوسرے طبقات میں لازماً سرایت کریں گے جو جسد اجتماعی میں اعضاء و جوارح کی حیثیت رکھتے ہیں اور رفتہ رفتہ پوری اجتماعیت نورِ ایمان سے جگمگا اٹھے گی اور پورے کا پورا دین اپنے مکمل نظامِ عدلِ اجتماعی سمیت عملاً قائم ہو سکے گا اس ایک راہ کے سوا اقامت دین کی کوئی اور راہ موجود نہیں اور یہ خیال تو بالکل ہی خام اور ’’اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ‘‘ (۱کا کامل مصداق ہے کہ کسی مسلمان قوم کے اسلام کے ساتھ ایک موروثی مذہب کی حیثیت سے جذباتی لگاؤ اور تعلق کو شتعل (exploit) کر کے ایک سیاسی تحریک برپا کر دینے سے قرآن کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے بہرحال یہ ایک جملہ معترضہ تھا. اصل بات جو اس وقت عرض کرنی مقصود ہے‘ یہ ہے کہ قرآن مجید پر عمل یعنی ’’حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ اور ’’اقامت مَا اُنزِلَ مِنَ اللّٰہ‘‘ قرآن مجید کا وہ حق ہے جو ہر مسلمان پر اس کی انفرادی حیثیت میں اور پوری اُمت مسلمہ پر اجتماعی اعتبار سے عائد ہوتا ہے اور جس کی ادائیگی کی فکر ہم میں سے ہر شخص کو انفرادی طور پر اور پوری اُمت کو اجتماعی طور پر کرنی چاہیے. (۱) سورۃ العنکبوت‘ آیت ۴۱ : ’’اور سب گھروں میں سب سے بودا گھر مکڑی کا گھر ہے‘‘.