ماننے‘ پڑھنے‘ سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ قرآن مجید کا ایک اور حق بھی ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد عائد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچائے.

پہنچانے کے لیے قرآن حکیم کی اصل اور جامع اصطلاح ’’تبلیغ‘‘ ہے‘ لیکن تبلیغ کے پہلو بھی بہت سے ہیں اور مدارج و مراتب بھی. حتیٰ کہ تعلیم بھی تبلیغ ہی کا ایک شعبہ اور تبیین بھی اسی کا ایک بلند تر درجہ ہے.
قرآن حکیم خود اپنے مقصد نزول کی تعبیر اِن الفاظ میں کرتا ہے :

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنۡذَرُوۡا بِہٖ (ابراہیم : ۵۲)
’’یہ (قرآن) پہنچا دینا ہے لوگوں کے لیے اور تاکہ وہ اس کے ذریعے خبردار کر دیے جائیں.‘‘
او ر نبی اکرم  پر اپنے نزول کا اوّلین مقصد یہ قرار دیتا ہے کہ :

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ (الانعام : ۱۹)
’’اور وحی کیا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ میں تمہیں اور جنہیں بھی یہ پہنچ جائے انہیں اس کے ذریعے خبردار کر دوں.‘‘ (۱)

ساتھ ہی اس بات کو غیرمبہم الفاظ میں واضح کر دیتا ہے کہ اس قرآن پاک کی بلاکم و کاست اور بعینہٖ تبلیغ آنحضور کا وہ فرضِ منصبی ہے جس میں ادنیٰ کوتاہی بھی فرائضِ نبوت و رسالت میں تقصیر شمار ہو گی. چنانچہ سورۃ المائدۃ میں انتہائی تاکیدی حکم دیا گیا : 

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ : ۶۷(۱) واضح رہے کہ ایک بگڑے ہوئے معاشرہ میں ’’تبلیغ‘‘ کا پہلا قدم ’’انذار‘‘ ہی کا ہوتا ہے. ’’اے رسول ! جو کچھ تم پر تمہارے ربّ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی (بلا کم و کاست) تبلیغ کرو‘ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے خدا کے فرضِ رسالت کو ادا نہیں کیا.‘‘

بعثت کی پہلی ساعت سے لے کر حیاتِ دُنیوی کی آخری گھڑی تک مسلسل تیئیس سال آنحضور اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت اٹھاتے اور شدائد و مصائب برداشت کرتے رہے اور اس عرصہ میں آپ کی دعوت اگرچہ بہت سے مراحل سے گزری جن میں آپؐ :کی مصروفیات بہت متنوع نظر آتی ہیں‘ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے عرصے میں آپ کی جدوجہد کا اصل محور قرآن مجید ہی رہا‘ اور اسی کی تلاوت و تبلیغ اور تعلیم و تبیین میں آپؐ : مسلسل مصروف رہے. چنانچہ قرآن مجید میں چار مقامات پر آپکے طریق دعوت و تبلیغ اور نہجِ اصلاح و انقلاب کی وضاحت ان الفاظ میں ہوئی ہے کہ :

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ 
(آل عمران : ۱۶۴‘ الجمعۃ : ۲
’’وہ (آنحضور ) تلاوت کرتے ہیں ان پر اس (خدا) کی آیات‘ اور تزکیہ کرتے ہیں ان کا‘ اور تعلیم دیتے ہیں ان کو کتاب اور حکمت کی.‘‘

ظاہر ہے کہ ان الفاظِ کریمہ کا مطلب وہی ہے جو میں اس سے قبل آپ کے سامنے اسلامی انقلاب کے مخصوص طریق کی وضاحت کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں. بہرحال اس طریق پر مسلسل تیئیس برس محنت کر کے آنحضور  نے قرآن مجید کی تبلیغ کا حق ادا فرما دیا‘ اور اللہ کی امانت اس کے بندوں تک پہنچا دی. ادائے امانت الٰہی کی اس جدوجہد کے دوران بھی آپ نے اپنے جاں نثاروں
(۱سے اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی میں اس تاکیدی حکم کے ذریعے تعاون حاصل فرمایا کہ :

بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً (۱) ان نفوسِ قدسیہ میں سے حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی مثال تو حد درجہ تابناک ہے‘ جن کی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی مدینہ منورہ میں انقلاب برپا ہوا اور یہ سرزمین ’’دار الہجرت‘‘ کا شرف و اعزاز پانے کے قابل ہوئی. اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے! ’’پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت!‘‘اور اپنے مشن کی تکمیل پر مستقبل کے لیے فریضہ تبلیغِ قرآن کی پوری ذمہ داری اپنی اُمت کے حوالے فرما دی. چنانچہ حجۃ الوداع کے خطبے میں سوا لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعدد بار یہ شہادت لے کر کہ میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے آئندہ کے لیے یہ مستقل ہدایت جاری فرما دی کہ : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ یعنی اب جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں. اور اس طرح قیامت تک کے لیے فریضۂ تبلیغ قرآن کا بوجھ اُمت محمد  کے کاندھوں پر آ گیا جس کے لیے بحیثیت مجموعی وہ خدا کے ہاں مسئول ہو گی. اب ظاہر ہے کہ اُمت افراد ہی پر مشتمل ہے. لہذا اس اُمت کا ہر فرد اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے. علماء اور فضلاء پر ذمہ داری ان کے علم و استعداد کی نسبت سے عائد ہوتی ہے اور عوام پر ان کی صلاحیت کی نسبت سے.

بہرنوع آنحضور کے ان مبارک الفاظ کے عموم سے کہ 
’’بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً‘‘ ثابت ہوتا ہے کہ اس ذمہ داری سے بالکل بَری کوئی بھی نہیں. جسے ناظرہ پڑھنا آتا ہے وہ دوسروں کو ناظرہ پڑھنا سکھا دے‘ جسے حفظ ہے وہ دوسروں کو یاد کرائے‘ جسے ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو ترجمہ پڑھائے اور جسے اس کا کچھ علم و فہم حاصل ہے وہ اسے دوسروں تک پہنچائے. حتیٰ کہ اگر کسی کو ایک آیت ہی یاد ہو اور وہ اسے ہی دوسروں کو یاد کرا دے یا قرآن کی کسی ایک آیت یا سورت کا مفہوم معلوم ہو اور وہ صرف اسی کا علم دوسروں تک منتقل کر دے تو یہ بھی ’’تبلیغ قرآن‘‘ میں شامل ہے. اگرچہ اس مقدس اور عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی جو ذمہ داری اُمت ِمسلمہ پر بحیثیت ِمجموعی عائد ہوتی ہے وہ صرف اس وقت پوری ہو سکتی ہے جب قرآن کا متن اور اس کا مفہوم اطراف و اکنافِ عالم تک پہنچا دیا جائے!

بحالاتِ موجودہ یہ ایک بہت دُور کی بات اور سہانا خواب معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے کہ واقعی صورت حال یہ ہے کہ وہ اُمت کو قرآن کو اقوام و اُممِ عالم تک پہنچانے کی ذمہ دار بنائی گئی تھی آج اس کی محتاج ہے کہ خود اسے قرآن ’’پہنچایا‘‘ جائے. لہٰذا اس وقت اصل ضرورت اس کی ہے کہ خود اُمت مسلمہ میں تعلیم و تعلّم قرآن کی ایک رَو چل نکلے اور مسلمان درجہ بدرجہ قرآن سیکھنے اور سکھانے میں لگ جائے. میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین!

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا‘ تبلیغ ہی کا ایک شعبہ تعلیم بھی ہے اور اسی کا ایک اعلیٰ درجہ وہ ہے جسے قرآن حکیم ’’تبیین‘‘ کا نام دیتا ہے. یعنی یہ کہ قرآن مجید کو صرف ’’پہنچا‘‘ ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کی پوری وضاحت کی جائے. اور ایک تو جیسا کہ میں نے قرآن پر تدبر کے ضمن میں عرض کیا تھا ‘لوگوں کے ذہنوں کے قریب ہو کر کلام کیا جائے اور قرآن کا نورِہدایت لوگوں کی نگاہوں کے عین سامنے روشن کر دیا جائے اور دوسرے یہ کہ اس کی سور و آیات کے مدلولات و متضمنات کو پوری طرح کھول دیا جائے.قرآن حکیم نے اپنے آپ کو ’’بیان‘‘ کے لفظ سے بھی تعبیر کیا ہے جیسے:

ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۸﴾ (آلِ عمران:۱۳۸)
’’یہ وضاحت ہے لوگوں کے واسطے اور ہدایت اور نصیحت ہے ڈرنے والوں کے لیے.‘‘

اور اپنے لیے ’’مبین‘‘ اور اپنی آیات کے لیے ’’بیّنات ‘‘اور ’’مبیّنات‘‘ کی صفات کا استعمال نہایت کثرت سے کیا ہے. ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کتب الٰہی کی تبیین و توضیح انبیاءِ کرام علیہم السلامکی ذمہ داری بھی ہے اور ان اُمتوں کی بھی جو اِن کی حامل بنائی جاتی ہیں‘ جیسا کہ آنحضور سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ :

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل : ۴۴)

’’اور اتاری ہم نے تجھ پر یہ ’’یاددہانی‘‘ تاکہ تو واضح کر دے لوگوں کے سامنے جو کچھ اترا ہے ان کے لیے.‘‘ اور اہل کتاب کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان سے تبیین کتاب کا عہد لیا گیا تھا :

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ (آلِ عمران : ۱۸۷)
’’اور جب عہد لیا اللہ نے ان سے جنہیں عطا فرمائی گئی کتاب کہ اس کو واضح کرو گے لوگوں کے لیے.‘‘
لیکن جب انہوں نے اپنے اس فرض کو ادا نہ کیا اور اُلٹا کتمانِ حق کے مرتکب ہوئے تو لعنت خداوندی کے مستحق قرار دیے گئے.

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾ۙ (البقرۃ :۱۵۹
’’بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں اس واضح تعلیم اور ہدایت کو جو ہم نے نازل فرمائی ہے اس کے بعد کہ واضح کر دیا ہم نے اس کو لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں‘ تو لعنت کرتا ہے ان پر اللہ اور لعنت کرتے ہیں سب لعنت کرنے والے.‘‘

اس ’’تبیین‘‘ کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر قوم پر اس کی عام زبان اور آسان محاورے میں سہل انداز سے قرآن مجید کا سرسری مفہوم واضح کر دیا جائے. اس لیے کہ کسی قوم کے لیے تبیینِ قرآن اس کی اپنی زبان ہی میں ہو سکتی ہے‘ جیسا کہ فرمایا گیا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ (ابراہیم : ۴)
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر بولی بولنے والا اپنی قوم ہی کی تاکہ واضح کر دے ان پر (اللہ کا پیغام).‘‘

اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ کتابِ الٰہی کے علم و حکمت اور اس کے مضمرات و مقدرات کو کھول کر بیان کیا جائے‘ اس کے نہج استدلال کو واضح کیا جائے‘ اس کے دلائل و براہین کی مدد سے تمام گمراہ کن خیالات و نظریات کی مدلل تردید کی جائے‘ اور وقت کی بلند ترین علمی سطح پر اعلیٰ ترین علمی استدلال کے ساتھ قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی حقانیت کو مبرہن کر دیا جائے. تبیین قرآن کے ادنیٰ درجے کے حق کی ادائیگی کی صورت فی الوقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر قابل ذکر زبان میں قرآن مجید کے فصیح و بلیغ تراجم مع مختصر تشریح و تفسیر شائع کیے جائیں اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی 
جائے اور اعلیٰ درجہ میں اس کے حق کی ادائیگی صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ ‘جیسا کہ میں نے تدبر قرآن کے ضمن میں عرض کیا تھا‘ عالم اسلام میں جابجا اکیڈمیاں اوریونیورسٹیاں قائم ہوں جن کا مرکزی موضوع قرآن حکیم ہو اور ان کے ذریعے اعلیٰ ترین علمی سطح پر قرآن مجید کی ہدایت کی وضاحت کی جائے. 

حضرات! یہ ہیں قرآن مجید کے وہ حقوق جو میرے فہم کے مطابق ہم سب پر بحیثیت مسلمان عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کی فکر ہمیں کرنی چاہیے. ہم وہ خوش قسمت قوم ہیں جس کے پاس اللہ کا کلامِ پاک من و عن محفوظ اور موجود ہے. یہ بات جہاں بڑے اعزاز کا باعث ہے وہیں اس کی بنا پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے. ہم سے پہلے کتابِ الٰہی کے حامل بنی اسرائیل بنائے گئے تھے ‘لیکن جب انہوں نے اس منصب عظمیٰ کی ذمہ داریوں کوادا نہ کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ اس اعزاز و اکرام کے لائق نہیں تو ایک دوسری اُمت برپا کر دی گئی اور اسے قرآن مجید کا حامل بنا کر کھڑا کر دیا گیا. سورۃ الجمعۃ کی آیت ۵ میں کتابِ الٰہی کے حامل ہو کر اس کے حقوق کو ادا نہ کرنے والوں کے لیے پہلے ایک مثال بیان کی گئی ہے کہ :

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ
’’ان لوگوں کی مثال جو حامل تورات بنائے گئے ‘پھر نہ اٹھایا انہوں نے اس (کی ذمہ داری) کو ‘اس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ پیٹھ پر لادے پھر رہا ہو.‘‘ 

اور پھر اس کے فوراً بعد واضح کر دیا گیا کہ ان کا طرزِعمل آیاتِ الٰہی کی تکذیب کے مترادف ہے.

بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ 
’’بری ہے مثال ان لوگوں کی جو جھٹلاتے ہیں اللہ کی آیات کو.‘‘

اور ساتھ ہی یہ سنت اللہ بھی بیان کر دی گئی ہے کہ :

وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾ ’’اور اللہ (ایسے) ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘
مَیں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا یا آپ کا شمار اللہ کے نزدیک ان لوگوں میں ہو اور دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں صحیح معنی میں قرآن کا حامل بنائے.

سورۃ الفرقان کی اس آیت ِکریمہ میں کہ :

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰
’’اور کہا رسولؐ نے اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کردیا.‘‘

اگرچہ اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے جن کے نزدیک قرآن سرے سے کوئی قابلِ التفات چیزہے ہی نہیں ‘لیکن قرآن کے وہ ماننے والے یقینا اس کے ذیل میں آتے ہیں جوعملاًقرآن کے ساتھ عدم توجہ و التفات کی روش اختیار کریں. چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

’’ آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قرا ء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں.‘‘ 
(۱
میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ہمارا شمار ایسے لوگوں میں ہو.اور اس دعائے ماثورہ پر اپنی اس تقریر کو ختم کرتا ہوں جو بالعموم صرف ختم قرآن پر (۱) عجیب اتفاق ہے‘ بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے ذاتِ نبوی ( ) سے قرب کی دلیل ہیں وہ الفاظ جو مولانا کے ان الفاظ کے بالکل مشابہ ایک حدیث میں وارد ہوئے جو حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور جس کے مطابق آنحضور  نے فرمایا 
یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَائِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (شعب الایمان للبیہقی‘ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد پنجم) 

’’اے قرآن والو! قرآن کو بس اپنا تکیہ ہی نہ بنا لو‘ بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے‘ اور اس کو (چار دانگ عالم میں) پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو‘ اور اس پر غور و فکر کرو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ .‘‘ 

(باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر) 
پڑھی جاتی ہے‘ لیکن جس کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ہمیں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بارگاہِ ربّ العزت سے حاصل ہو جائے :
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَھُدًی وَّرَحْمَۃً‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَائَ اللَّیْلِ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (آمین)

’’پروردگار!ہم پرقرآن عظیم کی بدولت رحم فرما اور اسے ہمارے لیے پیشوا‘ نور اور ہدایت و رحمت بنا دے. پروردگار! اس میں سے جو کچھ ہم بھولے ہوئے ہیں وہ ہمیں یاد کرا دے اور جو ہم نہیں جانتے ہمیں سکھا دے .اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس کی تلاوت کریں راتوں کو بھی اور دن کے حصوں میں بھی اور بنا دے اسے دلیل ہمارے حق میں اے تمام جہانوں کے پروردگار! ‘‘(آمین) 
(باقی حاشیہ گزشتہ صفحہ سے) سبحان اللہ کتنا پیارا ہے وہ خطاب جواس اُمت کو ملا اور کتنے جامع ہیں حدیث شریف کے الفاظ جنہوں نے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق کا کمال اختصار کے ساتھ احاطہ کر لیا. حقیقت یہ ہے کہ ہماری سینکڑوں تقریریں قربان آنحضور کے ان چند الفاظ مبارکہ پر بالکل سچ فرمایا آنحضور  نے کہ اُوْتِیْتُ جَوَامِعُ الْکَلَمِ (مجھے نہایت جامع کلمات عطا ہوئے ہیں) فِدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.