زوالِ اُمت کا اصل سبب اور اس کا علاج

مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر میں


’’اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت ِحقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت ِاصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جا سکتا ہے کہ علماءِ حق و مرشدین ِصادقین کا فقدان اور علماءِ سوء و مفسدین دجالین کی کثرت … رَبَّنَا اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْـلَا… اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے‘ تو اس کو امام مالکؒ کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ ’’لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ یعنی اُ مت ِمرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہو سکے گی‘ تاوقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی ‘اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین ِصادقین پیدا کیے جائیں.‘‘ 

(ماخوذ از ’’البلاغ‘‘ جلد اوّل‘ شمارہ اوّل‘ مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء)