ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ خطاب انتہائی پر تاثیر‘ نہایت مدلل اور خطابت کی معراج تھا. کسی تقریر‘ خطاب یا درس کو ٹیپ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا کافی مشکل کام ہے.اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے یہ کام انجام پاتا ہے. لیکن تحریر میں مقرر کا زورِ خطابت‘ الفاظ کی ادائیگی کا زیروبم‘ اس کی اپنی شخصیت کا اثر‘ دورانِ تقریر الفاظ کی ادائیگی کا خاص طرز اور ان پر زور‘ ہاتھوں کی حرکات و سکنات کا انداز اور مجموعی طور پر ان سب کا سامعین پر جو گہراتأثر قائم ہوتا ہے‘ اسے تحریر میں سمونا ممکن نہیں ہے. آڈیو کیسٹ کی سماعت سے بعض باتوں کی کچھ نہ کچھ تلافی ضرور ہوتی ہے ‘البتہ ویڈیو کیسٹ بڑی حد تک ان سب کا بدل ہو سکتا ہے ‘ لیکن افسوس کہ اس خطاب کے ویڈیو کیسٹ تیار نہ ہو سکے. بہرحال اس عاجز کی ناچیزرائے میں ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ خطاب ان کے بہترین خطابات میں سے ایک ہے اور ؏ ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کا مرقع. علامہ اقبال نے کہا تھا ؏ ’’اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی‘‘… ڈاکٹر صاحب موصوف نے قرآن مجید میں غوطہ زن ہو کر اس بحر بے کنار میں سے معارف و عرفان اور حکم و عبر کے کچھ در شہسوار نکالے ہیں جو اس خطاب میں آپ کو نظر آئیں گے. اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کے بارے میں سچ فرمایا تھا الصادق المصدوقﷺ نے وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ ’’علماء کبھی اس کتاب سے سیر نہ ہو سکیں گے‘ نہ کثرتِ تکرار سے اس کے لطف میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات (یعنی نئے نئے علوم و معارف و بصائر کے خزانے) کبھی ختم ہو سکیں گے‘‘.
َ محاضراتِ قرآنی کے بعد رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ (جون۱۹۸۴ء) کے دو اجتماعاتِ جمعہ میں مسجد دارالسلام لاہور میں ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے موضوع پر محترم ڈاکٹر صاحب نے دو خطابات مزید ارشاد فرمائے تھے. گویا جو کلی ۲۵مارچ کو کھلی تھی اس نے شگفتہ پھول کی شکل اختیار کرنی شروع کر دی تھی. ان میں سے آخری خطاب کا عنوان تھا :’’جہاد بالقرآن کے پانچ محاذ‘‘… یہ خطاب بھی اس عاجز نے کیسٹ سے منتقل کر لیا تھا اور اب اسے بھی معمولی حک و اضافہ کے بعد اس کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے.
یہ دونوں خطابات محترم ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ کی نظر ثانی کے بغیر شائع کیے جا رہے ہیں. البتہ ان میں سے دوسرے خطاب (جہاد بالقرآن کے پانچ محاذ) پر قرآن اکیڈمی کے فیلوحافظ خالد محمود خضر نے نظرثانی کر کے اسے مزید بہتر بنانے میں تعاون فرمایا ہے. جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْجَزَاءِ.
ان میں جو صواب ہے وہ من جانب اللہ ہے اور اگر کوئی خطا ہے یا اظہارِ مدعا میں کوئی تقصیر ہے تو اس کی ذمہ داری اس عاجز کے ناتواں کاندھوں پر ہے‘ جس کے لیے یہ عاجز بارگاہِ ربّ العزت میں دست بدعا ہے: رَبَّـنَا لَا تُؤَاخِذْنَــآ اِنْ نَّسِیْنَــآ اَوْ اَخْطَاْنَا!
مزید دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حسن نیت‘ حسن عمل اور اپنے دین حق کا صحیح فہم نیز اس کی صحیح خدمت کی توفیق و سعادت سے بہرہ ور فرمائے‘ ڈاکٹر صاحب موصوف کی مساعی ٔ جمیلہ و جلیلہ کو دنیا و آخرت میں مشکور فرمائے‘ نیز اس عاجز کی جانب سے اس کام میں اس حقیر سے تعاون کو اس کے لیے توشۂ آخرت بنائے.
فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ. آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!!
احقر جمیل الرحمن عفی عنہ
۱۰؍رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ