اس پہلی منزل پر سب سے پہلے کشمکش کرنی پڑے گی اپنے نفس سے. نفس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیاہے: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’یقینا نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے‘‘. ’’اَمَّارَۃ‘‘ اَمر سے مبالغہ کا صیغہ ہے‘ یعنی بہت ہی زیادہ اکسانے والا‘ نہایت سختی سے حکم دینے والا . لہذا اللہ کا بندہ بننے کے لیے پہلی کشمکش خود اپنے نفس کے ساتھ کرنی پڑے گی. ایک حدیث میں نفس کے خلاف جہاد کو ایک اعتبار سے ’’افضل الجہاد‘‘ قرار دیا گیا ہے. حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اَفْضَلُ الْجِہَادِ اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی (۱’’افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ کا مطیع بنانے کے لیے ان کے خلاف جہاد کرو‘‘.حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ (۲’’اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے‘‘.پس پہلی کشمکش ہر اُس شخص کو اپنے نفس سے کرنا ہو گی جو واقعتاً اللہ کا بندہ بننا چاہتا ہے .اسی نفس کے متعلق مولانا رومؒ نے کیا خوب بات کہی ہے :

نفس ما ہم کمتر از فرعون نیست
لیکن اُو را عون ایں را عون نیست! 

یعنی میرا یہ نفس بھی فرعون سے کم نہیں ہے. فرق بس اتنا ہے کہ فرعون کے پاس لاؤ لشکر تھا لیکن اس کے پاس لاؤ لشکر نہیں ہے‘ورنہ میرا نفس اندر سے وہی کچھ دعویٰ کر رہا ہے جو فرعون نے کیا تھا. اس کا دعویٰ تھا ملک ِمصر کے بارے میں: اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ (الزخرف:۵۱’’کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں ہے؟‘‘اسی طرح میرا نفس میرے وجود پر حکومت کا دعوے دار ہے. پس سب سے پہلا اور سب سے بڑا جہاد ’’مجاہدہ مع النفس‘‘ ہے. جس نے اس منزل کو سر نہیں کیااور وہ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے تو میرے نزدیک اس کے لیے ہلکے سے ہلکا لفظ ’’حماقت‘‘ ہے.
نفس امارہ کو تقویت دینے کے لیے ایک طاقت موجود ہے‘ وہ ہے شیطانِ لعین اور اس کی صلبی و معنوی ذریت. اس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اِس نفس کو تقویت پہنچائے‘ اس میں پھونکیں مارے اور اس میں جتنے بھی سفلی محرکات ہیں انہیں مشتعل کرے. ایک حدیث کی ابتدا میں الفاظ آتے ہیں:

اِنَّ اِبْلِیْسَ لَہٗ خُرْطُوْمٌ کَخُرْطُوْمِ الْکَلْبِ وَاضِعُہٗ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ (۱) رواہ الدیلمی‘ بحوالہ کنز العمال ۴/۲۶۹.
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب فضائل الجہاد. 
یُذَکِّرُہُ بِالشَّھَوَاتِ وَاللَّذَّاتِ وَیَاْتِیْہِ بِالْاََمَانِیِّ وَیَاْتِیْہِ بِالْوَسْوَسَۃِ عَلٰی قَلْبِہٖ لِیُشَکِّکَہٗ فِیْ رَبِّہٖ (۱)

’’ابلیس کی بھی تھوتھنی ہے کتے کی تھوتھنی کی طرح .وہ اسے ابن ِآدم کے دل پر رکھ دیتا ہے اور اسے خواہشاتِ نفس اور مرغوب چیزوں پر اُبھارتا ہے‘ وہ اس کو لمبی لمبی امیدیں (wishful thinkings) دلاتا اور اس کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے‘تاکہ اسے اپنے ربّ کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے.‘‘

ایک اور متفق علیہ حدیث ہے:
اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِِ) (۲)

’’شیطان انسان کے اندر خون کی مانند دوڑتا ہے.‘‘ 
قرآن مجید میں مختلف اسالیب سے بے شمار مقامات پر شیطان کے اغوا اور فریب سے خبردار اور متنبہ کیا گیا ہے. ایک مقام پر فرمایا: 
اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ (فاطر:۶’’(لوگو! )یقیناشیطان تمہارا دشمن ہے ‘پس تم بھی اسے دشمن سمجھو(دشمن جانو)‘‘. اور سورۃ الکہف میں بڑا پیارا انداز ہے ‘جس میں ایک لطیف سا طنز بھی موجود ہے. فرمایا:

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا ﴿۵۰

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ (۱) رفع البأس عن حدیث النفس للشوکانی‘ ح:۴۰‘ راوی : معاذ بن جبلؓ .

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتکاف‘ باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ. 
اس کے علاوہ صحیح بخاری میں یہ حدیث متعدد مقامات پر الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ متعدد طرق سے وارد ہوئی ہے. وصحیح مسلم‘ کتاب السلام‘ باب بیان انہ یستحب لمن رؤی خالیا بامرأۃ وکانت زوجتہ او محرما لہ ان یقول : ھذہ فلانۃ ‘ لیدفع ظن السوء بہ. وسنن ابی داوٗد‘کتاب الصیام‘ باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ. کیا سوائے ابلیس کے. وہ جنوں میں سے تھا‘ سو اُس نے اپنے ربّ کے حکم سے روگردانی کی.کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذریت (صلبی و معنوی) کو اپنا دوست بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں. ایسے ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے.‘‘

چنانچہ کشمکش کرنا ہو گی‘ مجاہدہ کرنا ہو گا شیطان اور اس کی صلبی و معنوی ذریت کے ساتھ اور اس کو شکست دینا ہو گی. اس لفظ ’’شکست‘‘ سے میرا ذہن اچانک علامہ اقبال کے فارسی کلام میں اُن کی نظم ’’نالۂ ابلیس‘‘ کی طرف منتقل ہوا جو مجھے بہت پسند ہے. شیطان اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہے کہ پروردگار! یہ انسان تو میری چوٹ کا نہیں‘ میرے مقابلے کا نہیں‘ ایک مشت ِخس ہے جس کے لیے میری ایک چنگاری کافی ہے. اس انسان کو اگر سوکھی گھاس ہی بنانا تھا تو مجھ میں 

اس قدر تیز و تند آگ رکھنے کا کیا فائدہ ہوا! 
ابن ِآدم چیست؟ یک مشت ِخس است! مشت ِخس را یک شرار از من بس است
اندریں عالم اگر جز خس نبود ایں قدر آتش مرا دادن چہ سود؟ 
نظم کا آخری شعر تڑپا دینے والا ہے ؎ 
اے خدا یک زندہ مردِ حق پرست
لذّتے شاید کہ یابم در شکست!

’’الٰہی! کوئی تو زندہ مردِ حق پرست ایسا ہو جو مجھے شکست دے دے ‘تاکہ میں بھی تو کبھی شکست کا لذت آشنا ہو سکوں.‘‘
تو دوسری کشمکش اور دوسرا مجاہدہ یہ ہو گا.

تیسری کشمکش ایک بگڑے ہوئے معاشرے کا جو سماجی دباؤ 
(social pressure) ہے‘ اس سے ہو گی. معاشرے کا دباؤ آپ کو ایک خاص رُخ پر دھکیلے گا. اس لیے کہ ایک ہجوم جس سمت میں جا رہا ہو اُس سمت میں چلنا بہت آسان ہے.آپ کو کوئی زور نہیں لگانا پڑے گا‘ وہ آپ کو خود دھکیل کر لے جائے گا. ؏ 

زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ بساز!
’’زمانہ تمہارے ساتھ موافقت نہیں کرتا تو تم اس کے ساتھ موافقت کر لو!‘‘

اس طرح کوئی تصادم نہیں ہو گا‘ کوئی کشمکش نہیں ہو گی‘ کوئی مزاحمت نہیں ہو گی . دُنیوی 
نقطۂ نظر سے عافیت اسی میں ہے‘ چین اور سکون سے زندگی بسر ہو گی کہ زمانہ تم سے موافقت نہیں کر رہا تو تم زمانے کے ساتھ موافقت کر لو. لیکن غیرت و حمیت کا تقاضا بالکل برعکس ہے ؏ 

زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز!
’’زمانہ تم سے موافقت نہیں کرتا تو تم اس سے لڑو!‘‘

پس دینی فرائض کی پہلی منزل پر تین اطراف و جوانب میں یہ تین کشمکشیں ہیں جو ہر اُس شخص کو کرنی ہوں گی جو واقعۃً اللہ کا بندہ بننے کا ارادہ اور عزم رکھتا ہو.