اس تبلیغ و دعوت کی بھی تین سطحیں ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے‘ ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس مغالطہ میں مبتلا رہیں کہ ہم تو تبلیغ کا حق ادا کر رہے ہیں‘ درآں حالیکہ وہ صورتِ تبلیغ ہو‘ حقیقی تبلیغ نہ ہو.میں تسلیم کرتا ہوں کہ الحمدللہ اس دور میں ایک خاص سطح پر تبلیغ و دعوت کے لیے ایک بہت وسیع حرکت ہو چکی ہے.اس کے حجم کا جہاں تک تعلق ہے وہ بڑا متاثر کن ہے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اس گلوب پر ہر وقت حرکت میں رہتے ہیں. لیکن میں پوری ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ تبلیغ اور دعوت کے لیے اگر ہم نے قرآنی ہدایات کو اپنا امام نہ بنایا اور ان کے مطابق کام نہ کیا جا سکا تو مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں گے. اس ضمن میں وہی دو آیات دوبارہ ملاحظہ کیجیے جو میں پہلے پیش کر چکا ہوں. پہلی آیت ہے: (۱) یہی بات سورۃ الاعراف میں اس اسلوب سے بیان فرمائی گئی:
فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾
’’پس یہ لازماً ہو کر رہنا ہے‘ کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور رسولوں سے بھی پوچھیں (کہ انہوں نے ہمارا پیغام پہنچادیا تھا یا نہیں اور ان کو کیا جواب ملا)‘‘. (جمیل الرحمن) یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ:۶۷)
اس آیت ِمبارکہ میں نبی اکرمﷺ کو جس تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے وہ قرآن مجید ہے. ارشاد ہوا: بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ ’’تبلیغ کیجیے اس کی (یعنی قرآن کی) جو آپ پر اتارا گیا ہے آپ کے ربّ کی جانب سے ‘‘. پس تبلیغ کا اصل محور و مرکز قرآن مجید ہونا چاہیے. پھر حضورﷺ کے ارشادِ مبارک نے ہر مسلمان کے لیے قرآن حکیم کی تبلیغ کے کام کو آسان بنا دیا ہے.آپؐ نے فرمایا: بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً ’’پہنچائو میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت پہنچائو‘‘. یہاں ’’ عَنِّیْ‘‘ کا لفظ خاص طور پر قابل توجہ ہے. یہ لفظ یہاں جس معنی و مفہوم کا حامل ہے اسے انگریزی میں ادا کیا جائے تو وہ ہو گا
’’on my behalf‘‘ .قرآن مجید کی تبلیغ کی اصلاً ذمہ داری ہے نبی اکرمﷺ کی. چنانچہ اسی آیت ِمبارکہ کے اگلے حصہ میں فرمایا: وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ ’’اور اگر آپ(ﷺ ) نے بالفرض یہ کام نہیں کیا تو آپؐ نے تبلیغ ِرسالت کا حق ادا نہ کیا.‘‘ میں نے ترجمہ میں لفظ ’’بالفرض‘‘ کا اضافہ اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے متعلق ذرا سا یہ گمان کہ آپ قرآن حکیم کی تبلیغ میں کوتاہی فرمائیں گے‘ ایمان کے منافی ہو جائے گا. معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ. یہ اسلوبِ بیان درحقیقت امت کے انتباہ (warning) کے لیے اختیار فرمایا گیا ہے کہ کہیں وہ اس ذمہ داری سے غافل نہ ہو جائے جو پوری اُمت پر بحیثیت کُل اور ہر مسلمان پر بحیثیت ِاُمتی ٔ رسولؐ عائد ہوتی ہے.
دوسری آیت جس کی تفصیل میں نے مؤخر کر دی تھی‘ اس کے حوالے سے دعوت کی تین سطحوں کا سمجھنا ضروری ہے. آیت مبارکہ ہے:
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (النحل:۱۲۵)
’’(اے نبیؐ ) دعوت دو اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت و دانائی کے ساتھ‘ اور عمدہ وعظ و نصیحت کے ساتھ‘ اور (ہٹ دھرم‘ ضدی اور حجتی) لوگوں کے ساتھ مجادلہ کرو اس طریق پر جو بہت ہی عمدہ ہو.‘‘
ہر دور اور ہر معاشرے میں آپ کو لوگوں کی تین سطحیں ملیں گی. ایک سب سے بلند سطح کے لوگ ہوتے ہیں‘ یعنی ذہین اقلیت (intellectual minority) . اسی کو intelligentsia بھی کہتے ہیں. یہی brain trust کہلاتا ہے. یہ طبقہ اگرچہ قلیل ترین اقلیت میں ہوتا ہے لیکن معاشرے میں مؤثر ترین ہوتا ہے اور معاشرے کا رُخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جیسے انسان کے جسم میں دماغ ہے جو وزن کے لحاظ سے کم و بیش آدھ سیر کا ہو گا‘ لیکن یہ اس کے پورے وجود اور پورے تن و توش کو کنٹرول کرتا ہے. ہاتھ پکڑ سکتا ہے‘ لیکن کس شے کو پکڑے‘ کس کو نہ پکڑے ‘اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا‘اس کا فیصلہ دماغ کرتا ہے. ٹانگیں اسے لے کر چل سکتی ہیں‘ لیکن کس سمت میں چلیں‘ کس میں نہ چلیں ‘اس کا فیصلہ دماغ کرتا ہے. اسی طرح معاشرے کا رُخ درحقیقت یہی ذہین اقلیت متعین کرتی ہے. اس کو جب تک دعوت دینے کا تقاضا دلیل کے ساتھ‘ برہان کے ساتھ پورا نہیں کیا جائے گا‘ یہ طبقہ کوئی اثر قبول نہیں کرے گا. جیسے قرآن حکیم یہود کو کھلا چیلنج کرتا ہے:
قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ (البقرۃ)
’’(اے نبیﷺ ! ان سے) کہہ دو کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو.‘‘
اگر اس ذہین اقلیت کو اعلیٰ علمی و فکری سطح پر مدلل طور پر آپ دین کی دعوت پیش نہیں کریں گے اور اسے by pass کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ذہین اقلیت دین کے حق میں ہموار نہ ہو سکے گی . اگرچہ by pass دل کے آپریشن میں بہت مفید ہوتا ہے‘ لیکن اسلامی انقلابی عمل میں یہ طرزعمل بہت خطرناک ہوتا ہے. اگرعوامی سطح پر بات پھیلتی چلی جا رہی ہے لیکن ذہین اقلیت میں وہ بار نہیں پا رہی تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا‘ اجتماعی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی. لہذا یہاں ہدایت آئی: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ ’’اے نبی! (لوگوں کو) حکمت کے ساتھ اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوتدیجیے‘‘.اس حکمت کے ساتھ جس کے متعلق ایک مقام پر فرمایا: وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ (البقرۃ:۲۶۹) ’’اور جس کو حکمت ود انائی ملی‘ اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی (بہت خیر مل گیا)‘‘. مجھے بڑا افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے یہاں ’’حکمت‘‘ کو حکمتِ عملی کے معنی میں لے کر اس آیت ِمبارکہ کی بڑی حق تلفی کی ہے. حکمت ِعملی بالکل دوسری چیز ہے‘ اگرچہ وہ بھی یقینا مطلوب شے ہے‘ لیکن یہاں جس شان کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے‘ درحقیقت اس کا مفہوم حکمت عملی نہیں ہے‘ بلکہ دلائل و براہین کے ساتھ ‘دانائی کے ساتھ ‘اس دعوت کو پیش کرنا ہے. اگر سوسائٹی کی ذہین اقلیت کو اِس وقت اور اس دَور کی اعلیٰ علمی و فکری سطح پر دعوت پیش نہ کی جا سکے تو معاشرہ بحیثیت ِمجموعی کبھی متأثر نہیں ہو سکتا.
دعوت کی دوسری سطح ’’عوامی‘‘ ہے . عوام کو دعوت عمدہ وعظ اور دل نشین نصیحت کے ذریعے دی جائے گی‘ کیونکہ انہیں کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہوتی. ان کے لیے ضرورت ہے موعظۂ حسنہ کی‘ وہی ان کے لیے کفایت کرے گی.
اس سطح پریہ بات نہایت اہم ہے کہ سننے والے یہ محسوس کریں کہ جو وعظ کر رہا ہے وہ ہم پر اپنی دین داری‘ علمیت اور شخصیت کی دھونس نہیں جمانا چاہتا‘ بلکہ وہ مخلص ہے اورہماری خیرخواہی کے لیے بات کہہ رہا ہے. اسے کسی دُنیوی اجر اور صلہ کی ضرورت نہیں ہے. ساتھ ہی انہیں یہ اعتماد ہو کہ وہ بہروپیا نہیں ہے‘ اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ والا معاملہ نہیں ہے ‘بلکہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے اپنی ذاتی اور نجی زندگی میں اس پر خود بھی عمل پیرا ہے. یہ دو چیزیں جمع ہو جائیں‘ ایک موعظہ ٔحسنہ اور دوسرے واعظ کا اعلیٰ کردار تومعاملہ ہو گا: از دل خیزد بردل ریزد اور ؏
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے!
یہ ہے عوامی سطح پر دعوت و تبلیغ. میں جانتا ہوں کہ اس دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے ایک بڑے طبقے میں عام طور پر وعظ کو ایک گالی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے. بڑے ہی استحقار کے انداز میں کہاجاتا ہے ’’اجی وعظ کہہ رہے ہیں‘‘. حالانکہ وعظ بڑی اور مؤثر شے ہے اور قرآنی اصطلاح ہے ‘لیکن اس کا ایک مقام اور محل ہے جہاں یہ تأثیر دکھاتا ہے. یہ عمل غیرموقع اور بے محل ہو گا تو غیرمؤثر رہے گا. ظلم کا مطلب ہی یہ ہے: وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ .یعنی ’’کسی چیز کو اپنے اصل مقام کی بجائے کسی اور جگہ رکھنا‘‘. ان عوام کو آپ فلسفہ پڑھائیں گے تو حماقت ہو گی اور intellectuals کو آپ وعظ پلائیں گے تو یہ کام بھی غیرمعقول ہو گا. ہر شے کو اپنی جگہ پر رکھنا ہی عدل ہے.
تیسری سطح جو ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہے‘ وہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ہٹ دھرم ہوتے ہیں‘جو کبھی مان کر نہیں دیتے‘ جن کے اپنے مفادات ہوتے ہیں‘ جن کی امدادِ باہمی کی انجمنیں بنی ہوتی ہیں ‘جن کے مفادات باطل نظام سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کی وجہ سے کور چشم ہو چکے ہوتے ہیں. بلکہ بسااوقات علیٰ وجہ البصیرت لوگوں کو گمراہ کررہے ہوتے ہیں . اگر ان لوگوں کے زہر کا تریاق فراہم نہ کیا جائے تو یہ عوام الناس کو گمراہ کرتے چلے جائیں گے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں مناظرہ کا فن وجود میں آیا.پھر اس نے باقاعدہ ایک خاص تکنیک اور تخصص(specialization) کی شکل اختیار کی. موجودہ دور میں کچھ لوگوں نے اسے پیشہ ہی بنا لیاتو اس میں چند خرابیاں درآئیں. مثلاًمجمع عام ہے‘ داد مل رہی ہے‘ تحسین ہو رہی ہے‘ تالیاں بج رہی ہیں‘ نعرے لگ رہے ہیں. گویا اتنی بڑی جیوری (Jury) ہے جس کے سامنے دو پہلوان عقلی کشتی لڑ رہے ہیں. یہ مناظرہ اور مجادلہ کا احسن انداز نہیں. قرآن مجید جسے مجادلہ کہتا ہے وہ احسن طریق پر محکم دلائل اور برہان کے ساتھ ہونا ضروری ہے.
دعوت کی یہ تیسری سطح لازمی ہے. اگر یہ کام آپ نہیں کریں گے تو اغیار سے شکست کھاجائیں گے. کون نہیں جانتا کہ ہمارے معاشرے میں عیسائیت کی تبلیغ ہو رہی ہے. ہم کنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر لگاتے رہے اور فقہی تعبیرات‘ راجح و مرجوح‘ افضل و مفضول کے ردّ و قبول میں آپس میں ہی مناظرے اور دنگل جماتے رہے اور جما رہے ہیں ‘جبکہ اندر ہی اندر عیسائیت دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو کھاتی چلی جا رہی ہے. اسی طرح دعوتی سطح پر اس دور میں قادیانیت بہت فعال ہو گئی ہے. (۱) قادیانی مبلغین کا انداز بڑا جارحانہ ہوتا ہے اور ایک عام آدمی تو کجا اچھا بھلا پڑھا لکھا ‘بلکہ عالم ِدین بھی ان کے مناظرین و مبلغین کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.
الاّ ماشاء اللہ. ان قادیانی مناظرین و مبلغین کو جس طرح خاص موضوعات پر تربیت دی گئی ہے ‘ اس کے ردّ اور ابطال کے لیے جب تک ہمارے ذہین و فطین لوگوںکو اسی طرح ٹریننگ نہ ملے یہ مسئلہ حل نہ ہو گا. ایک وقت میں جب یہاں انگریزی حکومت کی سرپرستی میں بڑے زور و شور کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ شروع ہوئی تھی اور پادری فینڈر نے برصغیر میں تہلکہ مچادیا تھا‘ اگر اُس وقت وہ مردِ حق کھڑا نہ ہو گیا ہوتا جس کا نامِ نامی مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہے‘ رحمتہ اللہ علیہ‘تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہندوستان میں مسلمان کس طرح عیسائیت کے اس سیلاب کی نذر ہو جاتے. اس پادری فینڈر نے پورے ہندوستان کے علماء کو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر للکارا اور کھلے طور پر دعوتِ مبارزت دی.
مولانا کیرانویؒ خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور پادری فینڈر کو میدان چھوڑ کر ہندوستان سے بھاگنا پڑا. پھر وہ ترکی پہنچا اور وہاں بھی اس نے یہی ہتھکنڈے شروع کیے. عثمانی سلطنت نے مولانا کیرانویؒ ‘کو ترکی آنے کی دعوت دی. مولانا جب وہاں پہنچے تو پادری فینڈر وہاں سے بھی فرار ہو گیا. تو دعوت کی یہ بھی ایک سطح ہے .یہ تیسری سطح ہے. کچھ لوگ اس کا تحقیر کے انداز میں ذکر کرتے ہیں ‘حالانکہ یہ بھی کرنے کا کام ہے. البتہ واضح رہے کہ قرآن اس کے لیے ہمیں ایک امتیازی اخلاقی معیار قائم رکھنے کا حکم دے رہا ہے: وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ . یعنی اس مجادلے میں بھی بالکل مخالفین کی سطح پر نہ اتر آؤ ‘ بلکہ تمہارا داعیانہ کردار اور اس کی ایک اخلاقی شان ضرور برقرار رہنی چاہیے.
ظاہر بات ہے کہ ایک شخص ان تینوں سطحوں پر کام نہیں کر سکتا. ہر کام کے اپنے اپنے تقاضے ہیں. جو سب سے اونچا کام ہے اس کے لیے اس دور میں ’’علم کو مسلمان بنانے‘‘ کی ضرورت ہے.آج علم ملحد ہو چکا ہے. اس کے بارے میں بڑی پیاری بات علامہ اقبال نے کہی ہے ؎ (۱) یہ تقریرقادیانیوں کے بارے میں صدارتی آرڈیننس سے قبل کی ہے. (مرتب)عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے؟
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!
معرفتِ خداوندی کی تلوار اس علم کی نیام میں سے نکل گئی ہے. یہ نرا خول ہے‘ اور محض خالی نہیں ہے ‘بلکہ اس میں الحاد کا خنجر اس تلوار کی جگہ پیوست کر دیا گیا ہے. اس علم کو مسلمان بنانا آسان نہیں ہے. لوگ نظامِ تعلیم کی بات کیا کرتے ہیں. میں یہ کہا کرتا ہوں کہ نظام اتنی بڑی بات نہیں ہے ‘یہ تو تعلیم دینے کا ایک ذریعہ ہے. سوال یہ ہے کہ اسلامی علم کہاں ہے جسے پہنچایا جائے؟ محض دینیات کا ایک پیریڈیا اسلامیات کا ایک شعبہ قائم کرنے سے کام نہیں چلے گا ‘جبکہ طبیعیات‘ معاشیات‘ عمرانیات‘ سیاسیات اور جو دوسرے علوم ایک طالب علم حاصل کر رہا ہے‘ ان کے رگ و پے میں الحاد اور مادہ پرستی سرایت کیے ہوئے ہے. اسی لیے علامہ ا قبال نے کہا تھا ؎
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ اِلا اللہ!
توحید کی بنیاد پر جب تک پورے علم کی تدوین ِنو نہیں ہو گی‘ تمام علوم کو جب تک مسلمان نہیں بنایا جائے گا‘ ہماری نئی نسل کے اذہان کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ممکن نہیں. ظاہر بات ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہے. جب تک سینکڑوں اور ہزاروں اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے نوجوان خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (۱) کو اپنا اصولِ عمل (motto) بنا کر میدان میں نہیں آئیں گے اور ان کو اداروں اور حکومت کی جانب سے مناسب ذرائع مہیا نہیں کیے جائیں گے اُس وقت تک یہ کام کیسے ہو گا! ہاں وعظ کی سطح پر ہمیں زیادہ جوہر قابل (talent) مل سکتا ہے. رہا مجادلہ کی سطح پر افراد کی ضرورت تو اس کے لیے خصوصی تربیت گاہوں کی ضرورت ہے.
دعوت کی تینوں سطحوں پر کام کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ. وسنن الترمذی‘ ابواب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی تعلیم القرآن. باصلاحیت نوجوان جن کے دل میں واقعی دین کا کام کرنے کی تڑپ ہے‘ ولولہ ہے‘ اُمنگ اور جذبہ ہے‘ وہ آگے بڑھیں‘ ان اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے اپنا دُنیوی کیریئر قربان کریں اور اپنی جانیں ان مقاصد کے حصول میں کھپائیں ‘تب جا کر ہی یہ کام ہو گا. اور یہ ہے جہاد فی سبیل اللہ کی دوسری منزل دین کی تبلیغ اور دعوت کے لیے مال و جان کو ان تینوں سطحوں پر کھپانا.
عجب حسنِ اتفاق ہے کہ میں نے نہی عن المنکر سے متعلق جو دو حدیثیں بیان کی ہیں ان میں نہی عن المنکر کے کا م کی انجام دہی کے لیے تین سطحوں ہی کا بیان ہوا ہے. پہلی سطح یہ ہے کہ بدی اور برائی کو ہاتھ یعنی قوت و طاقت سے روک دینا. دوسری یہ کہ اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے‘ وعظ سے اور تلقین و نصیحت سے اس کو روکنا‘ اس کی مذمت کرنا.اور تیسری سطح یہ ہے کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا جاننا‘ اس پر گھٹن محسوس کرنا‘ اس پر پیچ و تاب کھانا. اور یہ آخری سطح ایمان کے کمزور ترین ہونے کی دلیل ہے. دوسری حدیث میں ان تینوں سطحوں کے لیے نبی اکرمﷺ نے ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا.
اس دوسری منزل کے لیے ایک دوسرا عنوان ’’نظریاتی کشمکش‘‘ یا ’’فکری تصادم‘‘ ہے. اگر آپ توحید کو پھیلانا چاہتے ہیں تو مشرکانہ اوہام رکھنے والے موجود ہیں‘ ان سے نظریاتی سطح پر تصادم اور مقابلہ ہو گا. آپ کو walk over نہیں مل جائے گا. کس قد ر اہم بات ہے کہ قرآن مجید نے یہی لفظ ’’جہاد‘‘ مشرک والدین کے ضمن میں دو جگہ استعمال کیا ہے‘ ایک سورۃ لقمان میں اور دوسرے سورۃ العنکبوت میں. جو نوجوان نبی اکرمﷺ پر ایمان لے آئے تھے تو ان کے مشرک والدین ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ واپس اپنے آ بائی دین پر آ جائیں. سورۃ لقمان میں ارشاد ہے:
وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا (آیت ۱۵)
معلوم ہوا کہ مشرک بھی مجاہد تھے. وہ مجاہد فی سبیل الشرک اور مجاہد فی سبیل الطاغوت تھے اور نبی اکرم ﷺ اور آپﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی مجاہد تھے اور وہ تھے مجاہد فی سبیل اللہ اور مجاہد فی التوحید. یہ جہاد اور یہ کشمکش آپ کو ہر دور میں ملے گی اور یہ بات بغیر استثناء کے حقیقت ِنفس الامری ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!