اب آئیے ایک قاعدہ کلیہ اور اٹل اصول کی طرف! وہ یہ کہ آپ اپنا نظام لانا چاہتے ہیں تو فی الوقت نافذ و قائم نظام کو ہٹانا ہو گا. جیسا کہ مولانا رومؒ نے کہا ؎ 

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
می ندانی اوّل آں بنیاد را ویراں کنند 

انقلاب کے لیے یہ عمل لازم و لابدی اور ناگزیر ہے. سیدھی سی بات ہے کہ جو نظام بھی کہیں قائم ہوتا ہے‘ اس کے ساتھ کچھ لوگوں کے مفادات‘ چودھراہٹیں‘ سیادتیں اور قیادتیں وابستہ ہوتی ہیں. یہ مراعات یافتہ طبقات جن کو اپنے حق سے زیادہ مل رہا ہے‘ جو دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ‘جن کے پاس اختیارات اور حقوق کا ناجائز ارتکاز ہو گیا ہے‘ وہ کبھی گوارا نہیں کر سکتے کہ کوئی اس نظام کو چھیڑے‘ اسے ہاتھ لگائے. وہ تو اس کے تحفظ کے لیے فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے کہ ؏ 

’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے‘‘ 

ہوش میں آؤ‘ اپنی قوتوں کو مجتمع کرو‘ یہ ایک آندھی آ رہی ہے جو تمہارے مفادات اور تمہاری مراعات کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر لے جائے گی. یہ کشمکش بڑی شدید ہے. قرآن مجید میں تین مقامات پر یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ 

(التوبۃ:۳۳‘الفتح:۲۸‘الصف:۹اور ان میں سے دو مقامات پر آیت کا خاتمہ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ کے الفاظ پر ہوا ہے. یعنی یہ ایک اٹل قانون ہے کہ مشرک کبھی دین ِحق کا غلبہ برداشت نہیں کرسکیں گے. تصادم ہو کر رہے گا. اب نظریاتی تصادم اگلے مرحلہ میں داخل ہو گا اور بالفعل (Physical) تصادم ہو گا. اب طاقت‘ طاقت سے ٹکرائے گی.

اس بالفعل تصادم 
(Physical Collision) کے بھی تین مرحلے ہیں. اس کے پہلے مرحلہ کو ہم کہیں گے ’’صبر محض‘‘ کہ ماریں کھاؤ مگر اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ نہ اٹھاؤ . بارہ برس مَکّہ میں یہی حکم رہا کہ اگر تمہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگی پیٹھ لٹایا جا رہا ہے تو لیٹ جاؤ‘ مگرجوابی کارروائی نہیں کر سکتے. اس کو جدید اصطلاح میں کہیں گے: Passive Resistance یعنی کلمۂ توحید اور کلمۂ طیبہ پر قائم رہو‘ لیکن ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے. 

اس تصادم کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اگر طاقت اتنی فراہم ہو گئی ہے کہ اقدام کیا جا سکتا ہے تو آگے بڑھو اور باطل کو للکارو اور چیلنج کرو. اس نظام کی کسی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑو. اسے جدید اصطلاح میں کہا جائے گا 
Active Resistance یعنی اقدام. 

اس کا تیسرا اور آخری مرحلہ ہے 
Armed Conflict یا مسلح تصادم یعنی اب ہاتھ بھی کھول دیے گئے ہیں اور اذنِ قتال دے دیا گیا ہے: 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ (الحج)
’’(آج سے) ان لوگوں کو اجازت دے دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور اللہ یقینا ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے.‘‘ 

مکی دور صبر ِمحض کا دور تھا. مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد نبی اکرم نے اقدام فرمایا اور چھاپے مار دستے بھیج کر قریش کی تجارت کے دونوں راستوں کو‘ جو مکہ سے یمن اور مکہ سے شام کی طرف جاتے تھے ‘مخدوش بنا دیا. گویا قریش کی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑ دیا‘ کیونکہ ان کی معاش کا بہت بڑا انحصار ان ہی راستوں کے ذریعہ تجارت پر تھا. 
صبر محض کے بعد ہر انقلابی عمل میں ’’مسلح تصادم‘‘ کا لازمی اور آخری مرحلہ آتا ہے.یہ انقلابی دعوت وقت کے جن فراعنہ کے مفادات کو چیلنج کرتی ہے‘ وہ جب اس دعوت کو توسیع پذیر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کو کچلنے کے لیے اپنی عسکری طاقت کو میدان میں لاتے ہیں اور اس طرح مسلح تصادم کا تیسرا اور آخری مرحلہ شروع ہو جاتا ہے. ہر انقلابی دعوت کو لازماً اس آخری مرحلہ سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے. اس لیے کہ یہ انقلابی دعوت وقت کے رائج و نافذ نظام کے ساتھ retaliate کرتی ہے. اب تک تو وہ جھیل رہی تھی‘ برداشت کر رہی تھی‘ لیکن جب وہ اقدام کا مرحلہ شروع کرتی ہے تو نظامِ باطل اس کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ بڑھتا ہے اور آخری مرحلے پر مسلح تصادم کا آغاز ہو جاتا ہے. اسلامی انقلاب کی صورت میں یہی مسلح تصادم جہاد کی آخری چوٹی ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ بن جاتا ہے. چنانچہ نبی کریم کی انقلابی جدوجہد میں ایک وقت وہ تھا کہ اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی‘ لیکن آخری مرحلے پر وہ وقت بھی آیا کہ جس کے متعلق حکم ِالٰہی آتا ہے:

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ (البقرۃ)

’’(مسلمانو!) تم پر جنگ فرض کر دی گئی ہے‘ اور وہ تمہیں ناپسند ہے‘ اورہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز ناپسند ہو درآنحالیکہ اسی میں تمہارے لیے خیر ہو‘ اور ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں پسند ہو درانحالیکہ اس میں تمہارے لیے شر ہو. اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے.‘‘ 

اس قتال کا ہدف 
(target) یہ ہے کہ مسلمانو! اب جبکہ تمہاری تلوار نیام سے باہر آ گئی ہے‘ تو یہ اُس وقت تک نیام میں نہیں جائے گی جب تک فتنہ و فساد بالکل فرو نہ ہو جائے اور اللہ کے خلاف بغاوت بالکل کچل نہ دی جائے اور دین کل کاکل ُاللہ ہی کے لیے نہ ہوجائے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹یہاں فتنہ سے مراد کیا ہے‘ اس کی ہمارے اکثر اصحابِ علم مختلف تشریحات و توجیہات کرتے ہیں. میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ چونکہ ہمارا دین کا تصور غیرانقلابی بن گیا ہے لہذا جہاں کہیں بھی انقلابی بات آتی ہے تو پہلو بچا کر نکلنے کی کوشش ہوتی ہے. اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فتنوں کا شمار مشکل ہے‘ استحصال بھی فتنہ ہے‘ ناانصافی بھی فتنہ ہے‘ لیکن وہ اصل فتنہ کیا ہے جو اِس آیت میں مراد ہے اور جو اُمّ الفتن ہے؟ وہ یہ ہے کہ یہ زمین اللہ کی ہے‘ اس کا جائز حاکم صرف اُس کی ذات ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ اگر زمین پر تشریعی معاملات اور اجتماعی نظامِ حیات میں اللہ کے سوا کسی اور کا حکم چل رہا ہے تو یہ اس کے خلاف صریح بغاوت ہے. یہی سب سے بڑا فتنہ ہے.
یہاں فتنہ سے اصلاً یہی فتنہ مراد ہے. اسی کے متعلق ایک مقام پر فرمایا گیا: 
وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ (البقرۃ:۱۹۱اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا: وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ (البقرۃ:۲۱۷غور کیجئے وہاں قتال و مقاتلہ کن کے خلاف تھا! اپنی ہی قوم اور اپنے قبیلہ کے لوگ‘ اپنے ہی بھائی بند‘ اپنے ہی اعزہ و اقارب مدمقابل تھے‘ لیکن وہ طاغوتی نظام کے علمبردار تھے اور اُمت ِمحمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اس بات پر مامور کی گئی تھی کہ اجتماعی نظام خالصتاً توحید کے انقلابی نظریے پر قائم ہو. جیسے فرمایا گیا: اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ (الزمر:۳اور: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ (الشوریٰ:۱۳سورۃ التوبۃ اور سورۃ الصف میں جہاں خاتم النبیین والمرسلین  کی بعثت کی امتیازی شان یہ بیان ہوئی ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ تو دونوں مقامات کے آخر میں فرمایا گیا: وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ’’اور چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوارہو!‘‘ 

جن لوگوں کے مفادات اور جن کی قیادت و سیادت نظامِ باطل سے وابستہ ہو وہ اس بات کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کا طاغوتی نظام بیخ و بن سے اکھاڑ کر توحید پرمبنی نظامِ عدل و قسط قائم کیا جائے. وہ تو مزاحمت کریں گے‘ مخالفت کریں گے اور اپنی 
پوری طاقت دین اللہ کے قیام و نفاذ کو روکنے کے لیے صرف کر دیں گے. لہذا اللہ کے فرماں برداروں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ کے باغیوں سے پنجہ آزمائی کریں‘ ان سے نبردآزما ہوں اور اللہ تعالیٰ کی تشریعی حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنا تن‘ من‘ دھن سب کچھ قربان کر دیں ‘تاکہ ’’حق بحق دار رسید‘ ‘والا معاملہ ہو جائے. جو لوگ یہ قربانی دیں تو وہ سرخرو ہیں .ازروئے الفاظ قرآنی:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾ (الاحزاب)

’’اہل ِایمان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے (اس کی راہ میں گردنیں کٹا کر سرخرو ہو چکے ہیں) پس ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی اپنی باری آنے کا منتظر ہے‘ اور ان اہل ایمان نے اپنے اس رویے اور طرز عمل میں ذرّہ برابر تبدیلی نہیں کی.‘‘

لیکن اگر ایمان کے دعوے دار بیٹھے رہیں‘ باطل کے ساتھ کوئی کشمکش نہ کریں ‘بلکہ اس کے زیر ِعافیت چین کی بانسری بجائیں‘ اپنے معیارِ زندگی کی بلندی ہی مقصود و مطلوب بن جائے تو یہ طرزِعمل دُنیوی قانون میں بھی اعانت ِجرم ہے. یہ باغیوں کے ساتھ ایک نوع کا تعاون قرار دیا جاتا ہے. 
ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ کا سب سے بڑا سبب یہی بغاوت ہوتی ہے. کائنات کے تکوینی نظام پر جس اللہ کی حکومت قائم ہے‘ یہ زمین اُ سی اللہ کی ہے‘ لہذا اس پر اس کی تشریعی حکومت بھی قائم ہونی چاہیے. اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ حکم دینے کا اختیار صرف اسی کو حاصل ہے. لیکن اس اصل الاصول کو چھوڑ کر خواہ کوئی فردِ واحد ہو‘ کوئی قوم ہو‘ عوام ہوں‘ کسے باشد‘ کوئی بھی ہو‘ وہ اگر اپنا حکم چلوا رہا ہے تو درحقیقت وہ خدائی کا مدعی ہے اور اللہ کا باغی ہے. مسلمان تو وہ ہے جوصرف اللہ کا وفادار ہو. اس موقع پر اچانک میرا ذہن اس مقدمۂ بغاوت کی طرف منتقل ہوا جو ہمارے ہی شہر کراچی کے خالق دینا ہال میں ہمارے چند اکابر کے خلاف پہلی جنگ عظیم کے دوران قائم ہوا تھا. یہ مقدمہ اس امر کی شہادت دیتاہے کہ ہماری تاریخ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے ذکر سے ہمیں کسی درجے میں سہارا ملتا ہے کہ انہوں نے وہی طرزِعمل اختیار کیا جو ایک مسلمان کے شایانِ شان ہے.ان اکابر نے پہلی جنگ عظیم کے اس ٹربیونل کے سامنے جو انگریزی حکومت نے بغاوت کے مقدمہ کے لیے قائم کیا تھا ‘برملا کہا تھا کہ ہاں ہم انگریزی حکومت کے باغی ہیں‘ اس لیے کہ مسلمان صرف اللہ کا وفادار ہو سکتا ہے ‘وہ کبھی غیر اللہ کا وفادار نہیں ہوسکتا!