قتال فی سبیل اللہ اسی جہاد فی سبیل اللہ کی چوٹی اور اس کا ذروۂ سنام ہے. یہ مقامِ محبوبیت ہے .ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصّف)’’یقینا اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں باندھ کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘ 

سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ اُنہیں مردہ مت کہو‘ وہ زندہ ہیں‘ مگر تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہوتا.‘‘
اور سورۂ آل عمران میں فرمایا:

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اُ نہیں مردہ نہ سمجھو‘ وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں‘ اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں.‘‘

یہ وہ اعلیٰ و ارفع مرتبہ ہے کہ خود نبی اکرم اس کی تمنا اور آرزو فرمایا کرتے تھے. ارشادِ نبوی ہے:

لَوَدِدْتُ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ (۱)
’’میرے دل میں بڑی آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں.‘‘

کتب ِاحادیث میں نبی اکرم کی یہ دعائیں منقول ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 
اور :
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 

لیکن سورۃالمجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ سنت بیان فرمائی ہے:

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۲۱

’’اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے (یعنی طے فرما دیا ہے) کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے. یقینا اللہ ہی زور آور اور زبردست ہے.‘‘ 

رسولوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وہ مقتول نہیں ہوتے. اس لیے کہ عالم ِظاہری میں اس طرح رسول کے مغلوب ہونے کا پہلو نکلتا ہے‘ البتہ انبیاء علیہم السلام کو یہ خصوصی تحفظ نہیں دیا گیا. چنانچہ ان میں سے بعض قتل بھی کیے گئے‘ جس کی سب سے بڑی مثال حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل ہے. 

ضمناً یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رفعِ آسمانی کی یہ بھی ایک دلیل ہے ‘کیونکہ وہ بھی ایک رسول تھے . پھر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت بھی ہے کہ جس قوم کی طرف رسول مبعوث کیا جاتا ہے وہ قوم اگر رسول کا انکار کر دے‘ اس پر صرف 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب التمنی‘ باب ما جاء فی التمنی ومن تمنی الشھادۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب فضل الجھاد والخروج فی سبیل اللہ. معدودے چند لوگ ہی ایمان لائیں تو اہلِ ایمان کو بچا کر اس قوم کو عذابِ استیصال کے ذریعہ اسی دنیا میں ہی تباہ و برباد اور ہلاک کر دیا جاتا ہے. حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے تھے. وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ بنی اسرائیل نے آنجناب ؑکا انکار کیا لیکن انہیں عذابِ استیصال سے نیست و نابود نہیں کیا گیا. یہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے لیے دلیل ہے. حضرت مسیحؑ قربِ قیامت میں جناب محمد  کے اُمتی کی حیثیت سے نزول فرمائیں گے اور ان شاء اللہ انہی کے ہاتھوں تمام یہودی عذابِ استیصال و ہلاکت کا مزہ چکھیں گے.

میں عرض کر چکا ہوں کہ ایمان اور جہاد لازم و لزوم ہیں اور جہاد کی چوٹی قتال ہے. البتہ قتال ہر وقت نہیں ہوتا‘ موقع و محل کے اعتبار سے ہوتا ہے. اگر کوئی اسلامی حکومت بالفعل قائم ہو اور اسے غیرمسلموں سے فی سبیل اللہ جنگ کا مرحلہ درپیش ہو اور حالات کے لحاظ سے حسب ِضرورت فوج موجود ہو یا مزید ضرورت کے لیے لوگ جنگ کے لیے نکل آئیں تو قتال فرضِ عین نہیں فرضِ کفایہ ہو جائے گا. لیکن ’’جہاد‘‘ وہ چیز ہے جو ایک مسلمان پر شعور کی عمر کو پہنچتے ہی فرض ہو جاتا ہے. اس جہاد کے مختلف مدارج ہیں‘ جن میں سے بعض کا میں قدرے تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں اور بعض کی طرف میں نے محض اشارات پر اکتفا کیا ہے. ’’قتال‘‘ اس جہاد کے عمل کی آخری چوٹی اور اس کا ذروۂ سنام ہے. اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے جو صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ (۱)

رسول اللہ  نے فرمایا :’’جو شخص اس حال میں مر جائے کہ نہ تو اُس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی ہو اور نہ ہی اس کے دل میں اس کا خیال آیا ہو (اس کی تمنا اور آرزو بھی پیدا نہ ہوئی ہو)تو ایسے شخص کی موت ایک نوع کے نفاق پر ہوگی‘‘. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب ذم من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ بالغزو. بقول اقبال ؎ 
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشور کشائی!