انقلابی دعوت و تربیت اور اس کا ذریعہ

انقلابی جدوجہد میں دعوت کے ساتھ تربیت کا مرحلہ آتا ہے. اس کی اہمیت کو اکبر الٰہ آبادی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس شعر میں بیان کیا ہے ؎ 

تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
اِن خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر! 

علامہ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کو اپنا مرشدِ معنوی مانا ہے. اسی حقیقت کو اقبال نے جس طرح ادا کیا ہے اس کی اپنی ایک شان ہے. فرمایا : ؎
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو!

اور علامہ کی فارسی شاعری میں یہ مضمون نقطۂ عروج پر آتا ہے. ؎ (۱) مسند احمد ۴؍۱۳۰. وسنن الترمذی‘ ابواب الامثال‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ.
با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن!
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن!!

یہ تربیت ہے ‘یہ تزکیہ ہے‘ یہ تعلق باللہ ہے‘ یہ رضائے الٰہی کے حصول کی آرزو اور تمنا ہے. ان چیزوں سے وہ اجتماعی طاقت وجود میں آتی ہے جس کو سلطنت ِ جم پر دے مارنا ہے‘ جس کو باطل اور طاغوت سے جا ٹکرانا ہے.
انقلابی عمل کے اگلے تین مراحل وہی ہیں جو بیان ہو چکے ہیں: صبر محض‘ اقدام اور مسلح تصادم. لیکن یہ جو پہلا مرحلہ ہے‘ جسے انقلابی عمل میں اصل حیثیت و اہمیت اور اوّلیت حاصل ہوتی ہے‘ اس کے دو مرحلے وہ ہیں جہاں جہاد قرآن کے ذریعے ہو گا. پہلا مرحلہ نظریاتی تصادم اور نظریاتی کشمکش کا ہے اور اس کے لیے بندۂ مؤمن کے ہاتھ میں جو تلوار ہے وہ قرآن ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 
وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا اس کے ساتھ حکمت بھی ہو. فرمایا: ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ کہ اس حکمت کے ذریعے دعوت و تبلیغ ہو. یہ قرآن موعظۂ حسنہ بھی ہے.فرمایا: قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ اسی میں جدال بھی ہے. مشرکین‘ ملحدین‘ منافقین اور اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ کا ذریعہ بھی یہی قرآن ہے. سورۃ النحل کی اس آیت میں یہ تمام طریقے نہایت حسین انداز سے آ گئے ہیں: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (آیت ۱۲۵پس قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر نظریاتی تصادم اور کشمکش کے میدان میں کود پڑو. انذار قرآن کے ذریعے سے ہو. ارشادِ الٰہی ہے: وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ (الانعام:۱۹تبشیر قرآن کے ذریعے سے ہو. میں آپ کو سورۂ مریم کی آیت سنا چکا ہوں جس میں انذار اور تبشیر دونوں کا ذریعہ قرآن ہی کو قرا ر دیا گیا ہے: فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ میں اپنے اس احساس کا اعادہ کر رہا ہوں کہ اس ’’بِہٖ‘‘ پر ہمارے اکثر اہل ِعلم نے کماحقہ ٗتوجہ نہیں دی. سورۃ الکہف کی پہلی دو آیات میں بھی نہایت خوبصورت اسلوب سے انذار و تبشیر کے لیے ذریعہ قرآن ہی کو قرار دیا گیاہے. فرمایا: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲

’’کل حمد و ثنا اور شکر و سپاس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی. ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب‘ تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے.‘‘

تذکیر ہو تو قرآن سے ہو. فرمایا: 
فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ (قٓ) ’’پس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہراُس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہہ سے ڈرے‘‘. معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ کہہ لیں یا نظریاتی تصادم و کشمکش کہہ لیں‘ اس کا ذریعہ‘ اس کا آلہ قرآن ہے. جبکہ ہم نے تو اِس قرآن کو وعظ کا ذریعہ بھی نہیں بنایا. اقبال نے اس کا مرثیہ کہا ہے ؎ 

واعظ دستاں زن و افسانہ بند معنی ٔ اُو پست و حرفِ اُو بلند
از خطیب و دیلمی گفتارِ اُو با ضعیف و شاذ و مرسل کارِ اُو

یعنی واعظ کا حال یہ ہے کہ ہاتھ خوب چلاتا ہے اور سماں بھی خوب باندھتا ہے. اس کے الفاظ بھی ُپرشکوہ اور بلند وبالا ہوتے ہیں لیکن معنی و مفہوم کے اعتبار سے نہایت پست اور ہلکے. اس کا سارا وعظ قرآن کے بجائے خطیب بغدادی اور دیلمی سے ماخوذ ہوتا ہے اور اس کا سارا سروکار بس ضعیف‘ شاذ اور مرسل روایات سے رہ گیا ہے. ہمارے عام واعظین نہ معلوم کہاں کہاں سے ضعیف حدیثیں لاتے ہیں. میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہمارے دور میں ضعیف حدیثوں کے حوالے سے تبلیغ ایک باقاعدہ ادارے کی صورت اختیار کر گئی ہے. فضائل کے بیان اور نیکیوںکی تلقین کے لیے اولیائے کرامؒ کی غیرمصد ّقہ کرامات کا ذکر ہے. وعظ و نصیحت کے لیے ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کا سہارا ہے‘ حالانکہ موعظہ ٔحسنہ تو یہ قرآن ہے. دل کی کایا پلٹ دینے کےوصف کا حامل یہ قرآن ہے ‘لیکن تلقین یہ کی جاتی ہے کہ اس کو سمجھنا بھی مت! تفسیر تو درکنار اس کا ترجمہ بھی نہ پڑھنا! اس کی تو بس تلاوت کرکے ثواب حاصل کر لیا کرو! وعظ و نصیحت کے لیے ضعیف روایات یا بے سروپا قصے کہانیاں ہیں‘ جن کو ایک عام معقول انسان کا ذہن بھی قبول نہ کرے اور ان کو تسلیم کرنے پر اس کا دل تیار نہ ہو. اس کے ذریعہ سے ابلاغ کیا ہو گا؟

جیسے کہ میں نے عرض کیا‘ انقلابی عمل میں پہلا مرحلہ دعوت کا ہے‘ جس کے لیے نظریاتی تصادم میں ہماری تلوار قرآن ہے اگرچہ اس کا حق ادا کرنا اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنا آسان کام نہیں ہے. اس کے لیے ضروری ہے کہ 
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ کی بشارتِ نبویؐ کو چند سعید روحیں اپنا مقصد ِزندگی بنائیں. اُن کو اس کے لیے زندگیاں لگانی ہوں گی.
دوسرا مرحلہ ہے تربیت. اس کے لیے بھی ہمارے پاس اصل تلوار قرآن ہے. ذرا غور تو کیجیے کہ قرآن مدعی ہے اس حقیقت کا کہ 
شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ میں ہوں. لیکن ہم نے تزکیۂ نفس کے لیے کہاں کہاں بھیک مانگی ہے اور پھر اس کے لیے فلسفے اور پورے پورے نظام مدوّن کیے ہیں. مگر اِس کوچے میں گزر نہیں ہے تو قرآن کانہیں ہے. اقبال نے اس کا بھی نوحہ کیا اور مرثیہ کہا ہے ؎ 

صوفی پشمینہ پوشِ حال مست از شراب نغمہ قوال مست
آتش از شعر عراقی در دلش در نمی سازد بقرآں محفلش 

’’پشمینہ پوش صوفی اپنے حال میں مست اور قوالی کی شراب سے مدہوش ہے. اس کے دل میں عراقی کے شعر سے آگ بھڑک اُٹھتی ہے لیکن اس کی محفل میں قرآن کا کہیں گزر نہیں ہے.‘‘ 

اور بالفرض کچھ ہو بھی تو اس کا کوئی اثر نہیں‘ جو مدعی ہے 
’’ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ‘‘ ہونے کا اور جس کے بارے میں اُس کا نازل کرنے والا خود ارشاد فرماتا ہے:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (بنی اسراء یل:۸۲’’ہم اس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو اہل ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے.‘‘

لیکن اس کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ ہم نے سارے کوچے کھنگال لیے‘ دردر سے بھیک مانگ لی‘ لیکن یہ دروازہ بند ہے. حالانکہ تربیت و تزکیہ بھی اسی قرآن کے ذریعے ہوگا!میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو بھی اس دور میں اقبال نے خوب پہچانا ہے. میں علمائے کرام کی عظمت اور ان کے مقام و مرتبہ کا معترف ہوں ‘ لیکن اس حقیقت کو بیان کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ان حقائق کا جو انکشاف اقبال پر ہوا ہے اور ان کا جو شعور و ادراک علامہ کو حاصل ہوا ہے وہ مجھے اس دور میں اور کہیں نظر نہیں آتا. کس خوبصورتی سے کہتے ہیں : ؎ 

کشتن ابلیس کارے مشکل است زانکہ اُو گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر قرآنش کنی!

’’شیطان کو بالکل ہلاک کر دینا بہت مشکل کام ہے. اس لیے کہ وہ انسان کے دلوں میں ڈیرا لگا لیتا ہے اور اس کی رسائی انسان کے دل کی گہرائیوں تک ہے. بہتر راستہ یہ ہے کہ اسے قرآن کی حکمت و ہدایت کی شمشیر سے گھائل کرکے مسلمان بنا لیا جائے.‘‘ 

غور کیجئے ہر شعر میں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مفہوم کو کس خوبی سے سمو دیا ہے! یہ حدیث نبویؐ گزر چکی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (متفق علیہ)
’’شیطان انسان کے وجود میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جیسے کہ خون.‘‘ 

پہلے شعر میں اس کا حوالہ ہے .دوسرا شعر بھی ایک حدیث ِنبویؐ سے ماخوذ ہے. ایک مرتبہ نبی اکرم نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے. کسی صحابی نے بڑی ہمت اور جرأت کی ( اللہ تعالیٰ انہیں اجر دے ‘وہ دریافت نہ کرتے تو یہ حکمت ہم تک کیسے پہنچتی) انہوں نے سوال کیا کہ حضور !کیاآپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا : ’’ہاں ہے‘ لیکن میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے!‘‘ یہ ہے وہ بات جو 
دوسرے شعر میں علامہ نے کہی ہے کہ اس قرآن کی شمشیر سے گھائل کر کے شیطان کو مسلمان بنایا جا سکتا ہے. 

اگر زہر ایسا ہے جو پورے وجود میں سرایت کرتا ہے تو یہ قرآن بھی وہ تریاق ہے جو پورے وجود میں سرایت کرتا ہے. ظاہر ہے اگر تریاق زہر سے زیادہ مؤثر نہ ہو تو زہر کا اثر کیسے زائل ہو گا! اس بات کو بھی اقبال نے اس طرح کہا ہے ؎ 

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!

یعنی یہ قرآن جب کسی کے اندر سرایت کر جاتا ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب آ جاتا ہے. اب وہ انسان بالکل بدلا ہوا انسان بن جاتا ہے. یہ باطنی انقلاب ہے‘ اندر کی تبدیلی ہے. یہ باطنی انقلاب‘ یہ اندر کی تبدیلی ایک عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے‘ ورنہ انقلاب کہاں سے آئے گا. ’’جہاں دیگر شود‘‘ کا اصل مفہوم تو یہ ہو گا کہ جس انسان کے اندر قرآن کے ذریعے تبدیلی آ گئی اس کے لیے جہاں بدل گیا‘ اس کی دیکھنے والی نگاہ بدل گئی‘ اس کا زاویہ نظر بدل گیا‘ اس کی اقدار بدل گئیں. اب اس کے لیے یہ جہاں وہ نہیں ہے ‘بلکہ ’’جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا یہ عالم پیر مر رہا ہے‘‘ والا معاملہ ہے .جب کسی کے دل میں قرآن اتر جائے تو اس کے لیے اب یہ عالم نیا عالم َہے. اس کا نقطۂ نظر اور مطلوب و مقصود بدل گیا ہے. اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اگر ایسے فدائین کی ایک منظم جماعت وجود میں آ جائے جن کے دلوں میں قرآن جاگزیں ہو جائے تو یہ تبدیلی عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر جوشِ ایمانی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ اسی قرآن کی بدولت ہی پیدا ہوا تھا. یہ مختصر سی اور بے سروسامان جماعت ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں تلوار لے کر کسریٰ و قیصر یعنی وقت کی دو عظیم سلطنتوں سے جا ٹکرائی تھی اور بیس سال کے مختصر عرصہ میں اول الذکر کو بالکل نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا‘ جبکہ آخرالذکر کو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے بالکلیہ بے دخل کر دیا تھا اور ان علاقوں پر اللہ کے دین کا جھنڈا لہرانے لگا تھا. حاصلِ کلام یہ کہ انقلابی عمل کی دو سطحیں ہیں‘ یا یوں کہہ لیں کہ جہاد کے دو levels ہیں.مجاہدہ مع النفس کے لیے ہمارا آلۂ جہاد قرآن ہے اور نظریاتی کشمکش اور تصادم کے لیے بھی ہماری تلوار قرآن ہے. 

تحدیث بالنعمۃ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اسی جہاد بالقرآن کا عزم لے کر میں ۱۹۶۵ء کے اواخر میں ساہیوال سے لاہور منتقل ہوا تھا‘ورنہ ۱۹۵۴ء میں لاہور سے ایم بی بی ایس کر کے میں ساہیوال میں مقیم ہو گیا تھا. لاہور آ کر میں نے بالکل تن تنہا اس کام کو شروع کیا. اُس وقت کوئی ساتھی ‘ کوئی ادارہ اور کوئی انجمن نہیں تھی. ’’میثاق‘‘ کا چارج سنبھالا تو تنہا خود ہی اس کا ایڈیٹر ‘خود ہی مالک‘ خود ہی پروف ریڈر‘ حتیٰ کہ خود ہی اس کا کلرک اور چپڑاسی. پھر دارالاشاعت الاسلامیہ قائم کیا تو وہ بھی تنہا‘ وہی ’’میثاق‘‘ والی صورت حال تھی. ساتھ ہی مولانا حسرت موہانی کے اس مصرعہ ؏ ’’ہے مشق ِسخن جاری‘ چکی کی مشقت بھی‘‘ کے مصداق مطب بھی کر رہا تھا‘ نبضیں بھی دیکھ رہا تھا اور نسخے بھی لکھ رہا تھا. اسی دوران کئی علاقوں میں مطالعۂ قرآن کے حلقے قائم کیے اور منتخب نصاب کا درس شروع کیا. قرآن کی دعوت کا یہ اعجاز کہ اعوان و انصار ملتے چلے گئے.۱۹۷۲ء کے اوائل میں مَیں نے میثاق میں ’’مرکزی انجمن خدام القرآن‘‘ اور اس کے زیرِانتظام قرآن اکیڈمی کے قیام کا خاکہ پیش کیا. الحمدللہ بعض دردمند اور اہلِ دل حضرات نے اس پر لبیک کہی اور ۱۹۷۲ء کے وسط میں باقاعدہ انجمن قائم ہو گئی. میں نے انجمن کے خاکے اور پھر دستور کی تقدیم میں یہ شعر درج کیا تھا ؎

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں!
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں!

الحمدللہ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۴ء تک قریباً بارہ سال انجمن کے قیام پر گزر گئے ہیں. اس عرصہ میں جو بھی بن پایا ہے اور جس کام کی بھی اللہ کی طرف سے توفیق ملی ہے وہ آپ حضرات کے سامنے ہے. انجمن کا قیام‘ اس کے لیے دفاتر‘ رہائشی کوارٹرز‘ ہاسٹل‘ جامع القرآن قرآن اکیڈمی کی تعمیرات‘ علوم و معارف قرآن کی نشر و اشاعت کے لیے مکتبہ کا قیام‘ دعوت رجوع الی القرآن کا پیغام پہنچانے کے لیے پاکستان کے دوسرے شہروں کے دورے اور دروس و خطابات کے ذریعے دین کے جامع تصور کو اُجاگر کرنے کی کوشش‘ قرآن کانفرنسوں اور محاضراتِ قرآنی کا انعقاد‘ مختلف شہروں میں قرآنی تربیت گاہوں کا انتظام‘ ساتھ ہی اسی پیغام کے لیے بیرون پاکستان کے اسفار‘ میں نے یہ کام صرف اس مقصد کے لیے گنوائے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ ان سب کاموں کو آپ ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے حافظے میں درج کر لیں. 

ایک وقت وہ بھی آیا جب خالصتاً اللہ ہی کی طرف سے اس دور کے سب سے مؤثر ذریعہ ٔابلاغ ٹیلی ویژن پر پورے پندرہ ماہ تک ’’الہدیٰ‘‘ کے نام سے قرآن مجید کا پیغام ملک کے گوشے گوشے تک پہنچا.پہلی مرتبہ جب اسلام آباد سے ٹی وی کے ایک پروڈیوسر صاحب مرکزی انجمن خدام القرآن لاہورکے دفتر میںرمضان المبارک میں روزانہ ’’الکتاب‘‘ کے عنوان سے تقاریر کی تجویز لے کر تشریف لائے تو اُس وقت انجمن کی مجلس ِمنتظمہ کا اجلاس ہو رہا تھا. میں وہاں سے اٹھ کر ان سے ملنے گیا. انہوں نے کہا کہ پورے رمضان میں روزانہ بارہ منٹ کا ’’الکتاب‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام ہوگا‘ اس میں آپ کو ایک پارے کے بارے میں کچھ بیان کرنا ہوگا. میں نے کہا مجھے ایک آیت کے لیے بسااوقات ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے اور آپ ایک پارے کے لیے مجھے بارہ منٹ عطا کر رہے ہیں‘ میں اس مختصر سے وقت میں کہوں گا کیا؟ میں نے معذرت کی کہ مجھ میں اس کی نہ صلاحیت ہے اور نہ جرأت .آپ کسی اور کو تلاش کیجئے. میں دفتر والوں سے یہ کہہ کر کہ ان کی چائے وغیرہ سے تواضع کرکے ان کو رخصت کر دو‘ انجمن کے اجلاس میں واپس آ گیا. ساتھیوں نے پوچھا کہ کون صاحب تھے؟ کیا معاملہ تھا؟ میں نے جب بتایا تو سب اراکین میرے سر ہو گئے کہ آپ نے یہ کیا کیا‘ وہ پانچ منٹ بھی دیں تو ضرور لے لیں! وہ اس ذریعہ ٔابلاغ کی اہمیت سے واقف تھے. بہرحال اراکین کے اصرار پر میں دوبارہ اٹھ کر گیا‘ وہ صاحب ابھی چائے پی رہے تھے. میں نے ان سے کہا کہ ساتھیوں کے اصرار پر میں یہ پیشکش منظور کرتا ہوں. 
چنانچہ دو سال رمضان المبارک میں روزانہ ’’الکتاب‘‘ کا پروگرام ٹی وی پر نشر ہوا‘ پھر تیسرے سال رمضان ہی میں ’’الٓـمّٓ‘‘ سیریز چلی ‘پھر ’’الہدیٰ‘‘ کا ہفتہ وار پروگرام نشر ہوا. اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے یہ راستہ پیدا فرما دیا. پھر بالکل درمیان میں ’’الہدیٰ‘‘ کا پروگرام ختم ہو گیا. درمیان میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ میں اس پروگرام میں ’’مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب‘‘ سلسلہ وار بیان کر رہا تھا. وہ نصف ہوا تھا کہ اچانک اس پروگرام کو بند کر دیا گیا. لیکن میں قطعی مطمئن ہوں کہ یہ اللہ ہی کا فیصلہ ہے اور اس میں یقینا خیر ہے. ارشادِ الٰہی ہے :

وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ (البقرۃ)
’’ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو. اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہو. اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے.‘‘

اس 
’’الہدیٰ‘‘ کے پروگرام کے ذریعے ملک بھر میں ایک پیاس پیدا ہو گئی. لوگوں کی یہی پیاس ہے جو مجھے کھینچ کر جگہ جگہ لے جا رہی ہے اور عرصہ سے صورت حال یہ ہے کہ میں عموماً لاہور سے ہفتہ کی صبح کو نکلتا ہوں اور جمعرات کی رات یا جمعہ کی صبح کو یہاں واپس پہنچتا ہوں. اگر آج شہر شہر جا کر میں قرآن کا پیغام پہنچا رہا ہوں تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ’’الہدیٰ‘‘کے پروگرام کو بنایا‘ ورنہ ہمیں کون جانتا تھا‘ اور اگرہم پچاس برس بھی لگے رہتے تو اپنے محدود ذرائع و وسائل سے اتنا وسیع حلقہ ٔتعارف پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور معاشرے میں اتنی پیاس پیدا نہیں ہو سکتی تھی جو بظاہر احوال نظر آرہی ہے.

بہرکیف میں گفتگو کے اختتام سے قبل عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن ہی ہمارا ذریعۂ دعوت ہے. نظریاتی تصادم اورکشمکش کے لیے ہماری تلوار قرآن حکیم ہے. جہاد بالقرآن ہی ہمارا طریقۂ کار ہے. نفس اور شیطان سے کشمکش کے لیے بھی ہمارے ہاتھ میں واحد 
تلوار قرآن مجید ہے. تزکیہ ٔنفس کے لیے قرآن نے جو پروگرام دیا ہے‘ اس میں دو مؤثر ترین چیزیں ہیں‘ ایک قیام اللیل‘ دوسری اس قیام میں ترتیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت و قراء ت. ابتدا میں قیام اللیل کا حکم اطلاقی شان کے ساتھ آیا تھا:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ (المزّمّل)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ( ) !رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم. آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو.‘‘
بعد میں جب اس نے ایک معین شکل اختیار کی تو حکم آیا : 
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ (بنی اسراء یل:۷۹)

’’اور رات کو اِس (قرآن) کے ساتھ قیام کرو‘ یہ تمہارے لیے نفل ہے.‘‘
رات کا جاگنا اور مجرد جاگنا نہیں ‘بلکہ قیام میں قرآن کی طویل قراء ت و تلاوت‘ یہ دو ہتھیار ہیں جن سے ایک بندۂ مؤمن کی جہاد بالقرآن کے لیے سیرت کی تعمیر ہوتی ہے اور اس دعوتِ موعظہ اور مجادلہ میں تأثیر پیدا ہوتی ہے.
اللہ تعالیٰ اس قرآن کو ہاتھ میں لے کر ہمیں باطل کے خلاف نبردآزما ہونے اور خود اپنے شیطان اور اپنے نفس سے لڑنے کے لیے اس قرآن کی تلوار کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے.


اَللّٰھُمَّ آنِسْ وَحْشَتَنَا فِیْ قُبُوْرِنَا‘ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ‘ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً ‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا‘ وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَاءَ الَّیْلِ وَآنَآءَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَoo