الحمد للّٰہ وکفی والصلوۃ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی 
خصوصا علی افضلھم سید المرسلین خاتم النبیین 
محمدٍ الامین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین… امَّا بَعد:
فاعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰
فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ 
(الفرقان)

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ (آل عمران:۱۰۳)

صدق اللّٰہ العظیم 

خطبۂ مسنونہ ‘ تلاوتِ آیات اور ادعیۂ ماثورہ کے بعد :

میں نے جہاں تک غور کیا ہے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری دینی‘ ملّی‘ قومی اور معاشرتی زندگی میں اِس وقت پانچ محاذ ایسے ہیں جو جہاد بالقرآن کے شدید طور پر متقاضی ہیں رہا مسلمانوں سے باہر کا دائرہ تو وہ ابھی بڑی دُور کی بات ہے. پہلا مسئلہ تو 
’’Physician heals thyself‘‘ کے مصداق خود اپنا ہے. اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو پوری نوعِ انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لیے برپا فرمایا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ’’تم وہ بہترین اُمت ہوجس کو نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے‘‘ دنیا کی دوسری قومیں اپنے لیے جیتی ہیں لیکن تمہیں ان کے لیے جینا ہے. بقول علامہ اقبال ؎

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے‘ جام رہے؟

ہماری مثال تو اس ساقی کی سی ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا جامِ ہدایت تھما دیا ہے اور ایک ایک فردِ نوعِ بشر کو اس سے سیراب کرنا ہماری ذمہ داری ٹھہرائی ہے. لیکن میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ تو بہت دور کی بات ہے. اِس وقت یہ خیر اُمت اور اُمت ِوسط خودکئی طرح کے ذہنی‘ فکری‘ اعتقادی ‘ نفسیاتی‘ جذباتی اور عملی انتشار سے دوچار ہے اور اسے مختلف روگ لگ گئے ہیں. یہ اس وقت نہایت مہلک اور مزمن امراض میں مبتلا ہوچکی ہے اور یہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں ہے‘ ہمارا یہ زوال و انحطاط صدیوں پر پھیلا ہوا ایک عمل ہے. 

لہذا پہلی اور مقدم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی ملت اور معاشرے کے دائرے کے اندر جائزہ لیں کہ اِس وقت وہ کون کون سے فکری‘ نظریاتی اور عملی محاذ ہیں جن پر ہمیں قرآن مجید کی شمشیربُرّاں کو ہاتھ میں لے کر صف آراء ہونا ہے اور ان کے بارے میںہمیں قرآن مجید اور سیرتِ مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے کیابنیادی و اساسی ہدایات ملتی ہیں. نیز ان ہدایات کے انطباق کے عملی طریقے اور تقاضے کیا ہیں؟اس مسئلہ پر غور و فکر کے نتیجے میں اِس وقت پانچ محاذ میرے سامنے آئے ہیں.