جہاد بالقرآن کا دوسرامحاذ جاہلیت ِجدیدہ کے خلاف ہے . جاہلیت ِجدیدہ الحاد و مادہ پرستی کا دوسرا نام ہے. اس میں اللہ کا انکار بھی ہے اور بعث بعد الموت کا بھی. اس میں مادے (matter) سے ماورا ء کسی شے کو تسلیم کرنے سے اعراض اور احتراز ہے. اسی جاہلیت ِ جدیدہ کے لیے میں طبیعیاتی عقل پرستی یا Scientific Rationalism کا لفظ بھی استعمال کیا کرتا ہوں.

جدید دَور کی اس جاہلیت کی عمر قریباً تین سوبرس ہے. یورپ کے دو ممالک فرانس اورجرمنی میں دو تحریکیں بیک وقت شروع ہوئی تھیں: ایک تحریک اصلاح ِمذہب 
(Reformation) اور دوسری تحریک احیاء العلوم (Renaissance) . بدقسمتی سے اُس وقت یورپ میں عیسائیت کے نام سے جو مذہب تھا وہ نہایت ظالمانہ و جابرانہ اور انتہائی غیر معقول اور بعید از انصاف نظام کا حامل تھا. اس میں ملوکیت (Monarchy) اور پاپائیت (Theocracy) کا گٹھ جوڑ تھا. اس کی وجہ سے لوگوں میں رد عمل کے طور پر مذہب سے ایک نفرت پیدا ہو گئی تھی. اس پس منظر اور اس فضا میں جب سائنس کی ترقی شروع ہوئی تو سائنس کی جڑوں میں الحاد پیوست ہو گیا اور سائنسی نقطۂ نظر یہ بن گیا کہ جو چیز verifiable نہیں ہے‘ جس کی ہم توثیق یا تردیدنہیں کر سکتے‘ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہونی چاہیے‘ یہ چیزیں لائق اعتناء نہیں ہیں. ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم یقین کے ساتھ یہ جان سکیں کہ اللہ موجود ہے یا نہیں ہے‘ تو اس پر ایمان چہ معنی دارد! اسی طرح ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں ہے.

اس کا ہمارے پاس نہ کوئی سائنسی ثبوت ہے اور نہ کسی نے موت کی سرحد پار کرنے کے بعد پھر واپس آ کرہمیں خبر دی ہے. لہذا اس کو چھوڑیئے‘ یہ خواہ مخواہ کے ڈھکوسلے ہیں. کوئی اسے "Dogma" کے طور پر مانتا ہے تو مانتا رہے‘ لیکن یہ کوئی قابل توجہ مسئلہ نہیں ہے. اسی طریقے سے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ ہمارے جسم میں جو جان (life) ہے‘ اس کے علاوہ روح نام کی بھی کوئی شے ہے. اس کی آج تک کوئی توثیق (verification) نہیں ہو سکی‘ لہذا اس مسئلہ کو چھوڑو. معقول طرزِ عمل یہی ہے کہ جو چیزیں موجود ہیں‘ ٹھوس ہیں‘ قابل ِتصدیق ہیں‘ ہمارے حواسِ خمسہ کے دائرے میں آتی ہیں اُن ہی پر توجہ مرتکز رکھو. لہذا طبیعیاتی عقل پرستی کا فارمولا یہ بنا کہ چونکہ اللہ ایک خیالی و تصوراتی چیز ہے جب کہ کائنات ایک حقیقت ہے‘ روح بھی ایک تصوراتی چیز ہے جب کہ مادہ اور جسم ایک ٹھوس حقیقت ہے‘ اور حیاتِ اُخروی بھی اسی قبیل کی شے ہے جب کہ حیاتِ دُنیوی ایک حقیقت ہے اور اس سے ہر وقت‘ ہر لمحہ اور ہر لحظہ سابقہ ہے‘ لہذا ماورائے حواس اور خیالی و تصوراتی باتوں پر غور کرنا وقت کا زیاں ہے. اس کے بجائے ہماری توجہات کا ارتکا ز اُن چیزوں پر ہونا چاہیے جو ٹھوس ہیں‘ نگاہوں کے سامنے ہیں‘ حواس کی گرفت میں آنے والی ہیں‘ قابل توثیق ہیں اور جن سے ہمیں ہر دم واسطہ پڑتا ہے. یہ ہے اصل میں اِس دَور کی جاہلیت ‘یعنی جاہلیت ِ جدیدہ کا صغریٰ کبریٰ. 

جاہلیت ِ جدیدہ کا ذکر قرآن میں

اس موقع پر میں آپ سے یہ عرض کر دوں کہ یہ نہ سمجھئے کہ یہ بالکل نئی جاہلیت ہے. دبے دبے انداز میں ایک محدود پیمانے پر الحاد و مادہ پرستی پر مشتمل یہ جاہلیت ‘جس کے لیے موزوں ترین لفظ ’’دہریت‘‘ استعمال کیا جا سکتا ہے‘ بعثت ِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے وقت بھی موجود تھی. میں حیران ہوں کہ قرآن مجید میں ایک ہی جملہ میں اُس قلیل گروہ کے فلسفہ دہریت کو اس طور سے بیان کر دیا گیا ہے کہ دورِ جدید کی ہر نوع کی جاہلیت اور دہریت کی طرف بھی اس میں واضح اشارات موجود ہیں. اور واقعہ یہ ہے کہ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے‘ جس کے متعلق نبی اکرم کا ارشاد ہے کہ اس میں پچھلے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور آنے والے زمانے کی بھی. تو قرآن کا یہ ایک جملہ دہریت و الحاد کے تمام مکاتیب فکر کی نمائندگی کرتا ہے: وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ (الجاثیہ:۲۴اس مکتب ِفکر کا قول نقل فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی تو بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے. یعنی ہم نہیں مانتے کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے. پھر یہ کہ ایسی کوئی بالاتر طاقت یا ہستی نہیں ہے جس کے فیصلے سے ہمارا یہ مرنا اورجینا ہو رہا ہو. ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی زندہ ہوتے ہیں…جبکہ قرآن مجیدمیں اس کے بالکل برعکس حقیقت بیان ہوتی ہے: یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ’’وہ(اللہ) ہی زندہ رکھتا ہے اور وہی موت دیتا ہے‘‘. یہ کارگاہِ موت و حیات اُسی کی تخلیق ہے: الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ ’’وہی ہے جس نے موت اور زندگی کی تخلیق فرمائی‘‘. لیکن یہاں نسبت اپنی طرف ہے: نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا ’’ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں‘‘. وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ ’’اور ہمیں ہلاک کرنے والی چیز بھی سوائے گردشِ افلاک کے اور کچھ نہیں‘‘.ایک نظام رواں دواں ہے. کچھ قوانین طبیعیہ (Laws of Nature) ہیں جن کے تحت اس کائنات کا کارخانہ چل رہا ہے. لوگ پیدا ہوتے ہیں‘ جیتے ہیں‘ مرتے ہیں. کسی بالاتر طاقت اور موت کے بعد دوبارہ وجود اورکسی دوسری زندگی کو ہم نہیں مانتے…!

بتائیے کہ اِس دَور کی جدید جاہلیت اس سے آگے اور کہاں جائے گی؟ بلکہ آج کے دور کے سائنٹیفک ذہن رکھنے والے لوگ تو پھر بھی محتاط الفاظ استعمال کرتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ باتیں حقیقت رکھتی ہیں یا نہیں! ہم کوئی حتمی حکم نہیں لگا سکتے کہ اللہ ہے یا نہیں! آخرت ہے یا نہیں! اس طرح سے وہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیتے ہیں. برٹرینڈرسل اس دَور کے عظیم ترین اور نہایت مسلمہ فلسفیوں میں سے تھا اور اس نے الحاد و مادیت اوردہریت کے فلسفے کا پرچار اور اللہ‘ آخرت‘ روح اور اخلاق کا ابطال جس بڑے پیمانے پر اور جس مقبولِ عام اور دلنشیں اسلوب و انذار سے کیا ہے‘ اس کا صحیح اندازہ ہم کو نہیں ہے. اس نے ہماری نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت کے اذہان کو مغلوب کررکھا ہے.

جیسا کہ میں نے ابھی سورۃ الجاثیہ کی ایک آیت کے ابتدائی حصے کے حوالے سے بیان کیاہے‘ اس نوع کی جاہلیت کے جراثیم اگرچہ وہاں بھی موجود تھے‘ لیکن اُس دور میں ایسے مسخ شدہ ذہنیت والے دانشور آٹے میں نمک کے برابر تھے. وہاں جو غالب جاہلیت تھی اسے میںجاہلیت قدیمہ کے ضمن میںبیان کر چکا ہوں. یعنی اللہ کو ماننے کے ساتھ جھوٹے معبودوں کا اقرار اور اُن کی پوجا پاٹ‘ اور آخرت کو ماننے کے ساتھ شفاعت ِ باطلہ کا تصور و عقیدہ جس پر قرآن میں نہایت واضح اور نمایاں انداز میں بحث کر کے اُس کا پوری طرح سے ابطال کیا گیا ہے. البتہ جاہلیت ِ جدیدہ کا معاملہ چونکہ وہاں بہت کم تھا لہذا اس پر قرآن مجید میں بحث اس انداز میں نہیں ہے جس طرح 
جاہلیت قدیمہ کے ضمن میں کی گئی ہے. لیکن اس معاملے میں بھی قرآن حکیم بھرپور رہنمائی فراہم کرتا ہے اور یہ رہنمائی اُن باصلاحیت‘ باہمت اور ذہین لوگوں کے لیے ہے جو کمر کس لیں اور پھر قرآن حکیم کی آیاتِ بیّنات میں غوطہ زنی کریں اور جدید اسلوب و انداز کے ساتھ اس کا ابلاغ و اعلام کریں. اس لیے کہ زمانہ اور اس کے تقاضے بدل گئے ہیں‘ جن اصطلاحات میں لوگ بات سمجھتے ہیں وہ اصطلاحات بدل گئی ہیں. اگر آپ بہترین اور مسکت بات قدیم اصطلاحات میں کہیں گے تو یہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی. اس کے لیے استدلال آپ کو جدید اصطلاحات میں ڈھال کر پیش کرنا ہوگا. پھر یہ کہ اس جاہلیت جدیدہ کے لیے اس دَور میں جو عقلی مواد فراہم کیا گیا ہے‘ اس کے ابطال کے لیے آپ کو عقلی دلائل لانے ہوں گے. اگرچہ ان تمام کاموں کے لیے اصل تلوار قرآن ہی کی استعمال ہوگی‘ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ اس میدان میں سخت محنت کی ضرورت ہوگی. اس کے لیے قرآن حکیم میں غوطہ زنی کرنی ہوگی جس کے لیے کچھ نوجوانوں کو اپنی پوری پوری زندگیاں وقف کرنی ہوں گی. 

جاہلیت ِجدیدہ کے لامحدود گوشے

جاہلیت ِ قدیمہ کے برعکس جاہلیت جدیدہ کئی گوشوں میں پھیلی ہوئی ہے. بے خدا سائنس اور فکر و فلسفہ کی جولانگاہیں لا محدود ہیں.اس دور میں علم الحیاتیات اور علم الحیوانات کی طرح کی "Physical Sciences" بھی ہیں ‘ پھر "Social Sciences" بھی ہیں‘ جن کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے. اور یہ بات جان لیجیے کہ ڈارون کا فلسفہ ٔارتقاء اب صرف حیاتیات کے میدان تک محدود نہیں رہا ہے‘اس نے انسان کی معاشرتی اقدار اور تمدنی و تہذیبی فکر‘ حتیٰ کہ فلسفہ ٔاخلاقیات تک کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے. اور یہ فلسفہ انسان کو محض ایک ترقی یافتہ حیوان کی سطح پر لاکھڑا کرتا ہے. اس فلسفہ نے حیوانی شہوات و داعیات کی تسکین کے لیے انسان کو حیوانات کی طرح کھلا لائسنس دے دیا ہے. چنانچہ ہمیں اس زہرکا تریاق فراہم کرنا ہوگا. پھر ماہرین نفسیات نے نفسیات (Psychology) کے میدان میں جو گل کھلائے ہیں اور جس طرح کی گمراہیاں پھیلائی ہیں‘ ان سب کا ابطال کرنا ہوگا. اس میدان میں سب سے بڑی گمراہی فرائیڈ کی پیدا کردہ ہے جس نے انسان کے تمام محرکاتِ عمل کو جنسی جذبے کے تابع قرار دے دیا ہے. اسی طرح عمرانیات (Socialogy) کے میدان میں جو بھی باطل اور گمراہ کن نظریات در آئے ہیں‘ ان سب کا توڑ کرنا ہوگا. 

مارکسزم 
(Marxism) اِس دَور کا سب سے مقبول فکر ہے جس کا صرف اذہان ہی پر نہیں‘ بلکہ دنیا کے قابل ذکر ممالک پر عملاً اس نظامِ فکر کا استیلاء و تسلط ہے. مارکسزم اور کمیونزم کے متعلق یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مادیت ہی کا نقطہ ٔعروج ہے. مادیت (Materialism) ہی اپنی انتہا کو پہنچ کر جدلی مادیت (Dialectical Materialism) کی شکل اختیار کرتی ہے. اور جیسے ڈارون کے نظریے نے اخلاقیات‘ معاشرت اور عمرانیات میں نفوذ کر رکھا ہے ‘ اسی طرح مارکسزم کے نظریے نے انسان کی اخلاقی قدروں اور انسانی تہذیب کے تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے. اس نے دین و مذہب کے عقائد کی بنیادیں ڈھا کر رکھ دی ہیں اور اپنے ماننے والوں کو مکمل طور پردہریہ و ملحد بنا کر رکھ دیاہے. انسان کے ماورائی عقائد اور اخلاقی قدریں اس فکر و نظریہ کے تحت آ کر بالکل نیا رُخ اختیار کر گئی ہیں.

الغرض اس تیسرے محاذ یعنی جاہلیت جدیدہ کی کوکھ سے بہت سے فتنے جنم لے چکے ہیں. ان سب کے خلاف محاذ آرائی کرنی ہوگی. اس جاہلیت ِ جدیدہ کے ابطال کے لیے خود اِس کے اندر بہت سے محاذ کھولنے ہوں گے. لہذا ان میں سے ہر ایک کے مقابلے کے لیے ضرورت ہے کہ چند باصلاحیت نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر دیں. باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ باہمت ‘محنتی اور کام میں غرق ہو جانے والے ہوں. ایسے نوجوانوں کے لیے نبی اکرم کی بشارت ہے : 
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’تم میں سے بہتر ین انسان وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں‘‘. قرآن حکیم کے معارف و حکم سے خود بھی بہرہ مند ہوں اور خلق ِخدا کو بھی مستفید کریں.

جاہلیت ِ قدیمہ کا ابطال ‘جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ محض ترجمۂ قرآن سے بھی 
ہوجائے گا‘ لیکن اس جاہلیت جدیدہ کے ابطال اور اس کی بیخ کنی کے لیے قرآن حکیم میں غور و تدبر کرنا ہوگا اور اس کے معانی و مفاہیم کے جواہر کی یافت کے لیے قرآن کے بحر ِبیکراں میں غوطہ زنی کرنی ہوگی.

ایک طویل حدیث میں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ قرآن حکیم کی شان میں یہ الفاظ آئے ہیں:

وَلَایَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَآءُ وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ (۱)
’’علماء کبھی اس کتاب سے سیر نہ ہو سکیں گے‘ نہ کثرت و تکرارِ تلاوت سے اس کے لطف و تأثیر میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات (یعنی نئے نئے علوم و معارف )کا خزانہ کبھی ختم ہو سکے گا.‘‘

قرآن مجید کی یہ تین شانیں جو نبی اکرم نے اس حدیث میں بیان فرمائی ہیں‘ ان میں سے آخری شان میری اس گفتگو سے بہت زیادہ متعلق ہے. ایک ہیرے کی کان کا تصور کیجیے‘ جس میں کارکن لگے ہوئے ہیں اورہیرے برآمد کر رہے ہیں. لیکن ایک وقت ایسا آکر رہتا ہے کہ کان خالی ہو جاتی ہے اور ہیرے دستیاب نہیں ہوتے. لیکن قرآن ایسی معدن ‘ ایسی کان نہیں ہے کہ جس کے متعلق کبھی یہ کہا جا سکے کہ حکمت کے موتی اب اس میں سے مزید نہیں نکل سکتے. قرآن تو اُس اتھاہ سمندر کے مانند ہے کہ انسان اس کی جتنی گہرائیوں میں جائے گا اتنے ہی اعلیٰ دُرِّ شہوار نکال کر لائے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیش جاری و ساری رہے گا. لیکن ظاہر ہے کہ قرآن کی حکمت کے سمندر میں غوطہ زنی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے. اس بحر کی گہرائیوں سے حِکم و معارف کے موتی نکال لانے کے لیے جان گسل کوشش اور پِتا مار کر محنت کرنا ہوگی. لہذا ذہین و باصلاحیت اور دولت ِ ایمانی کے حامل حضرات کو اس بحر زخّار کی غواصی سے ہر دَور کے تمام باطل نظریات اورخدا نا آشنا افکار کے ابطال کے لیے نہایت محکم دلائل اور قاطع براہین ملتے رہیں گے‘ جیساکہ نبی اکرم نے ارشادفرمایا: 
وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ پس اس دوسرے محاذ پر یعنی جاہلیت جدیدہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی ہمیں قرآن کی شمشیر ِبرّاں ہاتھ میں لے کر مورچہ لگانا ہوگا. (۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی فضل القرآن.