ہمارے معاشرے میں معتدبہ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بحمداللہ شعوری سطح پر جاہلیت قدیمہ اور جدیدہ دونوں سے بچے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کی بیماری ایک تیسری نوع کی بیماری ہے اور وہ ہے بے یقینی کی بیماری. یعنی مثبت طور پر جو یقین ہونا چاہیے انہیں وہ میسر نہیں ہے.اور ظاہر بات ہے کہ محض منفی چیزوں سے اگر آپ نے خود کو بچابھی لیا تو اس سے آپ کے اخلاق و کردار پر اور آپ کی زندگی کے رُخ پر کوئی فیصلہ کن اثر مترتب نہیں ہو سکتا جب تک کہ مثبت طور پر یقین نہ ہو. سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ کے درس کے ضمن میں مَیں نفاق اور ایمان کے بارے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ان دونوں کو یوں سمجھئے کہ نفاق ایک منفی قدر (minus value) ہے اور ایمان ایک مثبت قدر (plus value) ہے. پھر اس مثبت قدر میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے.

ایک میرا اور آپ کا ایمان ہے‘ ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ‘عشرہ مبشرہ اوربالخصوص انبیاء و رُسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ایمان ہے .تو یوں سمجھ لیجیے کہ یہ معاملہ لا محدود درجے (plus infinity) تک چلتا جائے گا. اسی طرح نفاق کا معاملہ ہے. اس کا ایک نقطۂ آغاز بھی ہے اور اس کا تیسرا درجہ بھی ہے‘ جہاں پہنچ کر یہ ٹی بی کے مرض کی طرح لا علاج ہو جاتا ہے. نفاق اور ایمان کے مابین ایک اور مقام ہے جسے میں’’zero level ‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں. میں نے جس تیسرے طبقے کا ذکر کیا ہے‘ بدقسمتی سے اس کی اکثریت اسی سطح پر کھڑی ہے. یعنی کوئی منفی چیز بھی نہیں ہے‘ نہ جاہلیت قدیمہ ہے نہ جاہلیت ِ جدیدہ کم از کم شعوری سطح پر نہیں ہے لیکن مثبت طور پر یقین محکم والا ایمان بھی نہیں ہے اور اس کی طرف کوئی پیش قدمی بھی نہیں ہو رہی. تو ضرورت اسی یقینِ محکم اور ایمانِ کامل والے ایمان کی ہے‘ جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا ہے ؎

یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری 

ایمان جب یقین کی شکل اختیار کرے گا جب ہی تو اس میں ایک قوت پیدا ہوگی!جب ہی وہ شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالے گا اور پوری شخصیت کی کایا پلٹ دے گا!

سورۃالحجرات ہی کی آیت ۷ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے : 
وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ’’اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک بہت محبوب کر دیا ہے اور اس کو تمہارے دلوں کے اندرمزین کر دیا ہے‘‘. نورِ ایمان نے تمہارے دلوں کو منور کر دیا ہے. یہ ایمان اللہ کے فضل و کرم سے تمہارے دلوں میں راسخ اور جاگزیں ہوگیا ہے. جب تک یہ کیفیت نہ ہو‘ ایمان کے اثرات انسان کے سیرت و کردار‘ معاملات اور عملی رویے پرمترتب نہیں ہوں گے. اب اس بے یقینی کا علاج کہاں سے لایا جائے؟ اس کا داروکہاں ملتا ہے؟ 

علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی

اسی قرآنِ حکیم کی آیاتِ بینات ہی سے اس بے یقینی کا علاج ہوگا. بقول مولانا ظفر علی خان مرحوم : ؎ 

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئے دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں! 

یقین والے ایمان کا اصل ذریعہ (source) قرآن ہے. اگرچہ اس کا ایک ذریعہ اور بھی ہے‘ لیکن وہ ثانوی ہے. صاحب ِیقین کی صحبت سے بھی یقین والا ایمان پیدا ہوتا ہے ؏ ’’صحبت ِصالح ترا صالح کند‘‘.اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب ِ یقین کے قرب کی مثال ایسے ہے جیسے آگ کی ایک بھٹی دہک رہی ہو‘ آپ اس کے قریب جائیں گے تو حرارت آپ کو پہنچ کر رہے گی. یہ قانونِ طبعی ہے. برف کی سل کے پاس بیٹھیں گے تو برودت تو آپ سے آپ پہنچے گی. تو اگرکسی کے دل میں یقین والے ایمان کی شمع روشن ہے تو آپ اگر اُس کے قریب رہیں گے‘ اس کی صحبت سے فیض اٹھائیں گے تو آپ کوبھی یقین کی دولت ملے گی. لیکن میں اس کو ثانوی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ وہ صاحب ِ یقین کہاں سے آئے گا! تو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ ایسے صاحب یقین پیداکرنے کا واحد ذریعہ بھی قرآن حکیم ہے. اس کا سب سے بڑا ثبوت میں یہ دوں گا کہ دنیا کے سب سے عظیم صاحب ِ یقین ‘ جن سے بڑا کوئی صاحب ِ یقین ہو ہی نہیں سکتا‘ خاتم النبیین‘ سید المرسلین حضرت محمد ہیں. قرآن مجید میں سورۃ الشوریٰ کی آخری سے پہلی آیت یعنی آیت ۵۲ میں نبی اکرم کے ایمان و یقین کا تجزیہ کر کے بتا دیا گیا کہ حضور کو ایمان و یقین کہاں سے ملا! ارشاد فرمایا گیا:

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾ 

’’اور(اے نبیؐ !) اسی طرح ہم نے اپنے امر سے ایک روح ـ(یعنی یہ قرآن مجید) آپؐ کی طرف وحی کیا ہے‘ (اس سے پہلے) آپؐ کو معلوم نہ تھا کہ کتاب کسے کہتے ہیں اور ایمان کیا ہوتا ہے!لیکن ہم نے اس (قرآن) کو نور بنا دیا جس کے ذریعہ سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں اور (اب جبکہ آپ حامل ِقرآن بن گئے تو) آپؐ یقینا نوعِ انسانی کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں گے.‘‘

نورِ وحی سے قبل حضور کے ایمان کی ماہیت

یہاںمجھے تھوڑی سی وضاحت کرنی ہوگی ‘مبادا مغالطہ ہو جائے. یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور وحی کے نزول سے قبل مؤمن نہیں تھے؟ اسی نوع کی ایک بحث ہمارے یہاں حضورکے آبا ء و اجداد کے بارے میں بھی چلتی ہے کہ کیا جناب عبداللہ‘ جناب عبدالمطلب‘ جناب آمنہ کو ہم کافر یا مشرک کہیں گے؟ یہ بحثیں عوامی سطح پر ہوتی ہیں اور اس میں بڑی جذباتیت آجاتی ہے. تو جان لیجیے کہ قرآن مجید ہمیں سورۃ النور کی آیاتِ نور کے ذریعے یہ بتاتا ہے کہ نورِ ایمان کے دو اجزائے ترکیبی ہیں‘ ایک نورِ فطرت اور ایک نورِ وحی. نورِ فطرت کی مثال صاف شفاف روغن کی ہے جو گویا بھڑکنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے چاہے دیا سلائی ابھی اس کے قریب نہ آئی ہو‘ جیسے پٹرول. تو درحقیقت انسان کی فطرت میں ایمان کا نور بالقوہ (potentially) موجود ہوتا ہے‘ البتہ اس پر پردے پڑ جاتے ہیں. بعض لوگوں کے وہ پردے اتنے دبیز اور بھاری ہوتے ہیں کہ اٹھائے نہیں اٹھتے. نورِ وحی بھی آ کر اُن لوگوں کے ان پردوں کو چیر کر دل کے اندر موجود نورِ فطرت کے روغن تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا. لہذا ایسے لوگ نور ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں. لیکن اس کے برعکس وہ شخص جس کے قلب پر کوئی حجاب نہیں‘ یعنی سلیم الفطرت اور سلیم القلب انسان‘(جیسا کہ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں الفاظ آئے ہیں: اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾ (الصّٰفّٰت) تو اس کے پاس جیسے ہی نورِ وحی آتا ہے تو یوںسمجھئے جیسے کہ آئینے کے سامنے روشنی آ گئی. لہذا نورِ وحی سے اس کا آئینہ قلب جگمگا اٹھتا ہے. تو یہ ہے مثال نورِ فطرت اور نورِ وحی کی. اسی کو سورۃ النور میں نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ سے تعبیر کیا گیا ہے. لہذا ہم یوں کہیں گے کہ نبی اکرم کے قلب ِ مبارک میں ایمان بالقوہ یا dormant form میں تو موجود تھا‘ لیکن اس کو تحریک وحی سے ملی‘ وحی نے اسے متحرک کیا‘ اسے actualise کیا. یہ ہے مفہوم ان الفاظ ِمبارکہ کا: مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ 

سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات جن کے متعلق صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہ آیات حضور کو شب ِ معراج میں اُمت کے لیے بطور تحفۂ خاص عطا ہوئی تھیں ‘ ان میں سے پہلی آیت میں قرآن حکیم پر پہلے خود نبی اکرم کے ایمان لانے کا ذکر ہے اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان لانے کا : اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ 

دلکش ترین ایمان کس کا ہے؟

اس ضمن میں نبی اکرم کی ایک بڑی پیاری حدیث مشکوٰۃ شریف کے آخری باب : باب ثواب ھٰذہِ الاُمّۃ میں امام بیہقی ؒ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ کے حوالے سے آئی ہے. اس حدیث کو حضر ت عمرو بن شعیب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں. چشم ِتصور سے دیکھئے کہ ایک مرتبہ حضور مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں رونق افروز ہیں. آپؐصحابہؓ سے سوال کرتے ہیں: اَیُّ الْخَلْقِ اَعْجَبُ اِلَـیْکُمْ اِیْمَانًا ’’مجھے بتاؤ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان کس کا ہے؟‘‘ اعجب‘ عجیب سے اسم تفضیل ہے. اردو میں عجیب کا لفظ حیران کن یا غیر معمولی بات کے لیے مستعمل ہے‘ لیکن عربی میں عجیب دل کو لبھانے والی شے کو کہتے ہیں ‘یعنی دلکش اور دل خوش کن چیز. سورۃ الاحزاب میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے. فرمایا گیا: وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکَ حُسۡنُہُنَّ (آیت۵۲’’اور چاہے ان کا حسن آپؐ کے دل کو کتنا ہی لبھانے والا کیوں نہ ہو‘‘. سورۃ المنافقون میں ارشاد ہوا: وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ (آیت۴’’اور جس وقت آپؐ ان کو دیکھتے ہیں تو اُن کے بدن آپ کو خوش لگتے ہیں‘‘. تو حضور نے صحابہؓ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ دلکش‘ دل کو لبھانے والا اور حسین ایمان کس کا ہے؟ یہ بھی حضور کی تعلیم و تربیت کا ایک انداز ہے.صحابہؓ نے عرض کیا: ’’فرشتوں کا‘‘. حضور نے اس کو رد فرما دیا: وَمَا لَہُمْ لاَ یُـؤْمِنُوْنَ وَہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ’’وہ ایمان کیسے نہیں لائیں گے جبکہ وہ اپنے ربّ تعالیٰ کے پاس ہیں!‘‘ ان کے لیے توغیب کا پردہ حائل نہیں ہے. وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو اس میں کون سا کمال ہے ؟پھر صحابہؓ نے عرض کیا: فَالنَّبِیُّوْنَ ’’پھر نبیوں کا ایمان ہے!‘‘

حضور نے فرمایا: 
وَمَالَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْہِمْ ’’ وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے جبکہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے!‘‘ انبیاء علیہم السلام پر اللہ کا فرشتہ وحی لے کر نازل ہوتا ہے‘ انہیں غیب کی خبروں سے مطلع کرتا ہے‘ پھر اللہ ان کو اپنی نشانیوں میں سے کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کراتا ہے. لہذا وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے اور ان کا ایمان ’’اعجب‘‘ کیسے ہوگا! تیسری بار صحابہ کرامؓ نے بڑی ہمت و جرأت کر کے اور ڈرتے ڈرتے عرض کیا: فَنَحْنُ ’’پھر ہم ہیں‘‘. ہمارا ایمان اعجب ہے. حضور نے اس کو بھی رد فرمادیا: وَمَا لَــکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَاَنَا بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ ’’ تم کیسے ایمان نہ لاتے جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں‘‘. یعنی اللہ کی سب سے بڑی نشانی اور اس کا سب سے بڑا معجزہ تمہارے سامنے ہے. تم کو میرے دیدار اور میری صحبت کا فیض حاصل ہے. میری ذات سے جن برکات کا ظہور اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا جو نزول ہو رہا ہے وہ تمہارے سامنے ہے. انتہائی قلیل تعداد اور بے سروسامان ہونے کے باوجود اللہ کی نصرت و تائید سے تمہیں مشرکین و کفار پر جو فتوحات حاصل ہو رہی ہیں‘ ان کا تم اپنی چشم سر سے ہر لمحہ مشاہدہ کرتے ہو. میں نے بنفسِ نفیس تمہیں توحید کی دعوت پہنچائی ہے‘ تم پر قرآن مجید کی تبلیغ اور اس کے معارف و حکم کی تبیین کی ہے‘ تو تم کیسے ایمان نہ لاتے! اب حضور خو دجواب ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا لَّـقَوْمٌ یَّـکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ ’’میرے نزدیک تو سب سے زیادہ دلربا‘ دلکش اور حسین ایمان اُن لوگوں کا ہو گا جو میرے بعد ہوں گے‘‘ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْہَا کِتَابٌ ’’ان کو تو اوراق ملیں گے جن میں ایک کتاب (قرآن مجید) درج ہوگی‘‘ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْہَا ’’وہ اس پر ایمان لائیں گے جو کچھ اُن اوراق میں ہو گا‘‘. یعنی وہ نہ میرے دیدار سے شاد کام ہوئے‘ نہ انہوں نے میری صحبت سے فیض اٹھایا‘ نہ انہوں نے ان برکات‘ معجزات‘ نزولِ رحمت اور نصرتِ الٰہی کا بچشم سر مشاہدہ کیا‘ لیکن وہ اس قرآن پر ایمان لانے کے ذریعے سے ان تمام حقائق کو نیہ و تشریعیہ پر ایمان لائیں گے جو میں لے کر آیا ہوں. 

اس مقام پرایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے. یہاں افضلیت کی بات نہیں ہو رہی. انبیاء کے بعد افضل ترین ایمان لاریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کا ہے. یہاں حسین و دلکش ایمان کی بات ہو رہی ہے‘ ان کے ایمان کی جنہوں نے نہ اللہ کی سب سے عظیم نشانی یعنی نبی اکرم کے چہرۂ انور کا دیدار کیا اور نہ دنیاکے عظیم ترین مربی و مزکی کی صحبت سے مستفیض ہوئے‘ لیکن انہوں نے نورِ ایمان قرآن مجید سے حاصل کیا جو درحقیقت منبع و سرچشمۂ ایمان ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نور قرار دے رہا ہے: 
جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ تو ایک سند قرآن مجید سے اور ایک سند حدیث شریف سے کافی ہے. معلوم ہوا کہ بے یقینی کے اس روگ کا واحد علاج قرآن حکیم ہی ہے. یہی بے یقینی کو ختم کرنے والی واحد تلوار ہے. چنانچہ ’’بے یقینی‘‘ کے خلاف بھی ’’جہاد بالقرآن‘‘ کرنا ہوگا. اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارۂ کار نہیں!