محاذِ چہارم: نفس پرستی اور شیطانی ترغیبات

اس دَور میں نفس پرستی اور شیطانی ترغیبات کا محاذ بڑی اہمیت کا حامل ہے. اس ضمن میں عام لوگوں کی نفس پرستی اتنی اہمیت نہیں رکھتی. اس لیے کہ اس کا سبب تو وہی ہے جس پر جاہلیت ِ قدیمہ‘ جاہلیت ِ جدیدہ اور بے یقینی کے محاذوں کے ضمن میں گفتگو کے دوران اشارات ہو چکے ہیں‘اور پھر اس نفس پرستی کا تعلق زیادہ تر افراد کی اپنی ذاتی زندگی سے ہے‘ لیکن ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اسے باقاعدہ ایک منظم ادارے (institution) کی شکل دے رکھی ہے اور کلچراور ثقافت کے نام پر منکرات و فواحش کا بازار گرم کر رکھا ہے. ایک مسلمان کے دل میں اباحیت اور منکرات سے جو بعد اور نفور ہوتا تھا اور حرام چیزوں کے خلاف دل میں جو جذبۂ نفرت ہوتا تھا اسے ثقافتی طائفوں‘ریڈیو اور ٹی وی ڈارموں‘ راگ و رنگ کی محفلوں اور تعلیمی‘ کاروباری‘ دفتری اور صنعتی اداروں میں مرد و زن کے مخلوط طریق ِکار کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے. اور اس سارے نظام کو ایک طرف اباحیت پسند طبقے اور دوسری طرف خود سرکاری سطح پر سرپرستی حاصل ہے. اس کو تہذیب ‘ ثقافت‘ فنونِ لطیفہ اور مرد وزن کی مساوات کے خوشنما نام دیے گئے ہیں.

اب بے پردگی‘ نیم عریانی‘ خواتین کی رنگین و مزین تصاویر کو تہذیب و تمدن کی ناگزیر ضرورت قرار دیا گیا ہے اور اس طرح عورت کو چراغِ خانہ سے شمع محفل اور اس سے بڑھ کر اشتہاری جنس بنا کر رکھ دیا گیا ہے.ہمارے اخبارات و رسائل (اِلّا ماشاء اللہ) اور دوسرے ذرائع ابلاغ اس میں مسابقت کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں‘اس کو وقت اور زمانے کا تقاضا سمجھ لیا گیا ہے. دین تو رہاایک طرف‘ ہماری جو معاشرتی‘ تہذیبی اور مجلسی اقدار تھیں‘ ان سب کو بھی پامال کیا جارہا ہے. 
جو لوگ یہ سب کچھ کر رہے ہیں وہ اگرچہ اقلیت پر مشتمل ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا 
ذرائع ابلاغ پر پوری طرح غلبہ اور تسلط ہے. اس اقلیتی گروہ نے کچھ وقتی تقاضوں اور کچھ لوگوں کے دینی رجحان کے پیش نظر ان ذرائع ابلاغ کا کچھ حصہ اسلامی اور دینی پروگراموں کے لیے بھی مخصوص کر رکھا ہے جو اکثر و بیشتر محض بہلاوے اور دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں ‘اوربڑی چابک دستی ‘ہوشیاری اور احتیاط یہ برتی جاتی ہے کہ کہیں کوئی ایسا کام نہ ہو جائے کہ ان ذرائع ابلاغ سے عوام الناس تک دین کا حقیقی پیغام پہنچ جائے. مبادا اعجازِ قرآنی لوگوں کے اذہان و قلوب میں نفوذ کر کے ان کو مسخر کر لے. یہ وہی خوف ہے جس کا اظہار علامہ اقبال مرحوم نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘‘ میں ابلیس کی زبان سے اس طرح کرایا ہے ؎ 

عصر ِحاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں!

لہذا سرکاری ذرائع ابلاغ میں دین و مذہب کے نام سے جو پروگرام رکھے جاتے ہیں یا اخبارات و رسائل میں جو صفحات مختص کیے جاتے ہیں ان میں بظاہر احوال کوشش یہ ہوتی ہے کہ غیر محسوس طریقے سے انتشار (confusion) کو ہوا دی جائے. چنانچہ کوئی مشرق کی بات کہتا ہے تو کوئی مغرب کی بات لکھتا ہے. کوئی شمال کی بات کہے گا تو اگلا جنوب کی بات کرے گا‘تا کہ دین و مذہب کے بارے میں نفسیاتی الجھاؤ اور ذہنی انتشار بڑھتا چلا جائے. پھر بالفرض کوئی مؤثر بات آ ہی جائے تو فوری طور پر اس کے متصلاً بعد کچھ ایسے پروگرام رکھ دیے جائیں گے جن کے ذریعے یہ اثرات زائل ہو جائیں‘ ذہن سے محو ہو جائیں‘ یعنی ؏ 
چشم ِعالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

پھر ان تمام ذرائع ابلاغ و وسائلِ ابلاغ کے کرتا دھرتا اُن خواتین کے بیانات‘ مضامین‘ انٹرویوز‘ تصاویر اور خبروں کو انتہائی نمایاں کرتے ہیں جو مغرب زدہ اور اباحیت پسند ہیں اور ہمارے ملک میں انتہائی اقلیت میں ہیں. لیکن تأثر یہ دیا جاتا ہے کہ گویا ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت اسی طرزِ فکر کی حامل خواتین کی ہے جن کے نزدیک 
دین و مذہب اور ہماری تہذیب و معاشرتی اقدار پر ِکاہ کے برابر بھی وقعت اور حیثیت نہیں رکھتیں. حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عظیم اکثریت ان دین پسند خواتین پر مشتمل ہے جن کے نظریات ان مغرب زدہ خواتین کے نظریات کے بالکل برعکس ہیں. لیکن معاملہ چونکہ یہ ہے کہ ؏ ’’ولیکن قلم در کف ِدشمن است‘‘ لہذا خواتین کے اس قلیل ترین طبقے کو وسائلِ ابلاغ کے ذریعے اس طرح project اور نمایاں کیا جاتا ہے گویا پاکستان میں بسنے والی تمام خواتین اسی نظریہ و خیال کی حامی ہیں. یہ ہے اس جہاد کا چوتھا محاذ. اب سوال یہ ہے کہ اس محاذ پر ہم کیا کر سکتے ہیں! 

کشتۂ شمشیر قرآنش کنی

ان ذرائع ابلاغ سے معاشرے میں نفس پرستی کا جو نفوذ ہو رہا ہے اور انسان کی سوچ اوررجحانات و میلانات کو جس طرح غلط رُخ پر ڈالا جا رہا ہے اس سے مقابلے کے لیے بھی ہمارے پاس ڈھال اور تلوار قرآن ہی ہے. میں نے حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ علیہ کے اس عزم کو بہت عام کیا ہے جس کا حضرت شیخ الہندؒ نے ۱۹۲۰ء میں اسارت ِ مالٹا سے رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علماء کے ایک اجتماع میں اظہار کیا تھا:

’’میں وہیں (مراد ہے اسارتِ مالٹا) سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کر دوں کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناً عام کیا جائے. بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے…‘‘

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علمائے حقانی و ربانی جو اپنا تعلق امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہما اللہ سے قائم کرنے کو اپنے لیے موجب اعزاز و افتخار سمجھتے ہیں‘ وہ فقہی و کلامی تعبیر اور استنباط کی بحثوں سے صرفِ نظر کر کے ایک منظم تحریک کی شکل میں حضرت شیخ الہندؒ کے عزم کو عملی شکل دینے کے لیے کمر ہمت کس لیں. شہر شہر‘ محلہ محلہ‘ کوچہ کوچہ‘ قریہ قریہ عوامی درسِ قرآن کے حلقے قائم کریں اور قرآن مجید‘ فرقانِ حمید کی شمشیر برّاں کے 
ذریعے نفس پرستی اور اباحیت پسندی کے خلاف جہاد کریں اور اس سیلاب کے آگے سدِّذوالقرنین بن جائیں. یہی پیغام اس مردِ قلندر نے آج سے قریباً نصف صدی قبل دیا تھا جس کو بجا طور پر حکیم الامت کہا جاتا ہے ‘یعنی ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم و مغفور. ان کا پیغام تھا ؎ 

اے کہ می نازی بہ قرآنِ عظیم تاکجا در حجرہ ہا باشی مقیم!
در جہاں اسرارِ دیں رافاش کن نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن! 

’’اے وہ شخص جسے حاملِ قرآن عظیم ہونے پرفخر ہے‘ آخر کب تک حجروں اور گوشوں میں دَبکے رہو گے؟ اٹھو اور دنیا میں دینِ حق کے اسرار و رموز اور عرفان و فیضان کو عام کرو اور شریعت اسلامی کے حکم و عبر کی نشر و اشاعت کے لیے سرگرم عمل ہو جاؤ!‘‘

یہ ہے علامہ مرحوم کا پیغام حاملِ قرآن اُمت اور بالخصوص علمائے حق کے لیے. بفضلہ تعالیٰ ملک کا کوئی قابلِ ذکر شہر ایسا نہیں ہے جس میں غالب اکثریت ایسے علمائے کرام کی نہ ہو جن کا امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ یا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے اکابر سے ارادت و عقیدت کا تعلق نہ ہو. آخر الذکر بھی درحقیقت ولی اللّٰہی اور دیوبند کے مکتب ِ فکر سے وابستہ رہے ہیں اور تھانوی مکتب فکر ہو یا ندوی‘ یہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں. اسی طرح مسلک ِ سلفی کا تعلق تو براہِ راست حضرت شاہ اسماعیل ؒ جیسے غازی و مجاہد اور شہید اور امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے قائم ہے. اگر ہمارے یہ علماءِ عظام منظم ہو کر عوامی درسِ قرآن کی تحریک برپا کر دیں تو اِن شاء اللہ العزیز نفس پرستی‘ اباحیت پسندی اور خدا ناآشنا ثقافت و فنونِ لطیفہ کے نام سے جو زہر ہمارے معاشرے میں پھیلایا جا رہا ہے اس کا سدّباب بھی ہو جائے گا اور جیسے جیسے قرآن حکیم اُمت کے اذہان و قلوب میں نفوذ اور سرایت کرے گا تو نتیجتاً ذرائع ابلاغ پر قابض اباحیت پسند قلیل طبقہ یا تو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر یا اسلام کے سچے خادموں کے لیے جگہ خالی 
کرنے پر مجبور ہو جائے گا. البتہ اس کے لیے ناگزیر شرط یہ ہے کہ تمام انواع کے فقہی و کلامی اختلافات و تأویلات سے دامن بچایا جائے اورقرآن حکیم کا انقلابی پیغام عامۃ الناس تک پہنچایا جائے. اگر اس احتیاط کو ملحوظ نہ رکھاگیا توابلیس کا وہ مشورہ کارگر ہوگا جو اُس نے اپنی شوریٰ میں بقول علامہ اقبال پیش کیا تھا کہ ؎ 

ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تأویلات میں اُلجھا رہے 

ذہن و فکر کی تطہیر اور سیرت و کردار کی تعمیر کی اساس اور نفس پرستی کے سیلاب کے آگے کوئی چیز اگر سد اور بند بن سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف قرآن مجید ہے. اباحیت و نفس پرستی کے قلع قمع کے لیے اگر ہمارے ہاتھ میں کوئی تیغ بے زنہار ہے تو وہ قرآن مجید ہے. علامہ اقبال کے یہ اشعار میں نے بارہا آپ کو سنائے ہیں‘ جن میں درحقیقت دو احادیث کی ترجمانی کی گئی ہے. یہ اشعار میرے مفہوم و مطلوب کو آپ کے اذہان و قلوب میں منتقل اور جاگزیں کرنے میں بہت ممد و معاون ہوں گے ؎

کشتن ابلیس کارے مشکل است زانکہ اُو گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتۂ شمشیر قرآنش کنی! 

’’ابلیس کو ہلاک کر دینا ایک نہایت مشکل کام ہے‘ اس لیے کہ اس کابسیرا نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ہے. بہتر صورت یہ ہے کہ اسے قرآنِ حکیم کی حکمت و ہدایت کی شمشیر سے گھائل کر کے مسلمان بنا لیا جائے.‘‘

واقعہ یہ ہے کہ آج ہماری ملی و قومی زندگی کے شعور کی گہرائیوں میں آرٹ کونسلز‘ ثقافتی طائفوں کے مبادلوں‘ راگ و رنگ کی محفلوں‘ رومانی ڈراموں‘ افسانوں اور لٹریچر اور ٹیلی ویژن کے مختلف
"Cultural Shows" نے ڈیرا لگا رکھا ہے. ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیتیں اس میٹھے زہر کی سرپرستی کر رہی ہیں. ان سے نبرد آزما ہونا آسان کام نہیں ہے. بہتر شکل یہی ہے کہ قرآن کی تلوار سے ان ارباب ِ اختیار کومسلمان بنانے کی کوشش کی جائے.

حقیقت یہ ہے کہ نفسانیت اور شہوانیت تو ہمارے نفس کے اندر ہی ہیں. شیطان ان نفسانی خواہشات و داعیات کو بھڑکاتا ہے ‘ انہیں مشتعل کرتا ہے‘ اس سے زیادہ اور 
کچھ نہیں کرتا. چنانچہ آخرت میں جب فیصلے چکا دیے جائیں گے تو جو لوگ دنیا میں شیطان کے دجل و فریب کا شکار ہوئے تھے وہ اس کو ملامت کریں گے. شیطان اس کا جو طویل جواب دے گا اُسے اللہ تعالیٰ نے سورۂ ابراہیم میں نقل فرمایا ہے. اس جواب میں وہ کہے گا:

وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُکُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِیۡ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِیۡ وَ لُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِیَّ ؕ (آیت ۲۲)
’’میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں‘ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنے راستے کی طرف بلایا (اسے خوش نما‘ دلفریب اور تمہارے نفس کے لیے لذت آفریں بنا کر پیش کیا) تو تم نے میری دعوت پر لبیک کہا. پس اب مجھے ملامت نہ کرو‘ بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو . یہاں نہ میں تمہاری کوئی فریاد رسی کر سکتا (اور تمہارے کام آ سکتا )ہوں اور نہ ہی تم میری فریاد رسی کر سکتے(اور میرے کام آ سکتے )ہو.‘‘

معلوم ہوا کہ شیطان اپنے راستے کو بہت مزین کر کے انسان کو اس کی طرف بلاتاہے ‘پھر انسان کے نفس میں‘ اس کے پورے وجود میں اس کی دعوت خوش نما زہر بن کر سرایت کر جاتی ہے. لہذا اس زہر کے لیے تریاق بھی وہ درکار ہے جو پورے وجود میں سرایت کر سکے اور پھر جس میں حلاوت اور تأثیر بھی ہو. ایسا کوئی تریاق سوائے قرآن کے اور کوئی نہیں ہے ؎ 

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود 

’’یہ قرآن اگر کسی کے اندر اتر جائے تو اُس کے باطن میں ایک انقلاب آجائے‘ اور فرد کے اندر کا یہ انقلاب ایک بین الاقوامی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے.‘‘