اُسوۂ رسول ﷺ سورۃ الاحزاب کے تیسرے رکوع کی روشنی میں

٭ نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۚ۲۴﴾وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿ۚ۲۵﴾وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا ﴿ۚ۲۶﴾وَ اَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَ دِیَارَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ وَ اَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا ﴿٪۲۷﴾ (آیات ۲۱تا۲۷

خطبۂ مسنونہ ‘ تلاوتِ آیات اور ادعیۂ ماثورہ کے بعد :
حضرات ! ان آیات پر ہماری گفتگو دو حصوں میں ہو گی. ایک تو ان شاء اللہ ہم
٭ سورۃ الاحزاب کی آیات ۲۱ تا ۲۷ پر مشتمل یہ درس محترم ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے اپنے مسلسل درس قرآن کریم کے دوران جامع القرآن قرآن اکیڈمی میں مئی ۱۹۷۹ء میں دیا. درس کی صورت میں اس رکوع کو ختم کریں گے. پھر اس رکوع میں اسوئہ حسنہ سے متعلق جو مضامین آئیں گے‘ ان کو ہم صرف علمی اعتبار ہی سے سمجھنے پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اس رکوع کے مضامین کی جو تعلیم عملی انطباق (Practicable Application) سے متعلق ہے اور ہمارے لیے اس میں جو عملی سبق ہے اس کو میں بعد ازاں ایک تقریر کی شکل میں کسی قدر وضاحت سے آپ کے سامنے رکھوں گا. ارشاد ہوا :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ 
’’یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک نہایت اعلیٰ نمونہ ہے.‘‘

اسوہ کے لفظ کا مادہ ’’ا س و‘‘ ہے.اُسوہ اور اِسوہ دونوں اس کے تلفظ ہیں. جس طرح قُدوہ اور قِدوہ دونوں ہم معنی ہیں ‘اسی طرح لفظ اُسوہ اور اِسوہ دونوں استعمال ہوتے ہیں ‘اور اس کا معنی و مفہوم ہے کسی کا اتباع کرنا‘ اور اس اتباع کو اپنے اوپر لازم کر لینا‘ خواہ اس میں کوئی تکلیف ہو خواہ مسرت. چنانچہ کسی کے اتباع کو اپنے اوپر مسرت و راحت اور تکلیف و مضرت دونوں کیفیات میں لازم کر لینا اسوہ ہو گا. اردو میں جب اس لفظ کا ترجمہ ایک لفظ میں کیا جائے گا تو ’’نمونہ‘‘ اس کے قریب ترین مفہوم کا حامل ہے ‘لیکن اس ترجمے سے ’’اسوہ‘‘ کا حقیقی مفہوم ادا نہیں ہوتا. اصل میں ’’اتباعِ سنت‘‘ کی جو اصطلاح ہمارے ہاں زیادہ معروف ہے اسی کی ایک نہایت حسین و جمیل تعبیر لفظ اسوہ میں موجود ہے.

یہاں ’’لَکُمْ‘‘ (تمہارے لیے) عام ہے. گویا اس کے مخاطب صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں ہیں‘ بلکہ تاقیامِ قیامت تمام مسلمانوں کے لیے نبی اکرم: کی سیرتِ مطہرہ اور حیاتِ طیبہ ایک اسوۂ حسنہ اور کامل نمونہ ہے.