آگے فرمایا: لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱

یہ درحقیقت ’’لَکُمْ‘‘ کا بدل آ رہا ہے آیت کے اس ٹکڑے میں وہ دونوں مفاہیم جمع کر دیئے گئے ہیں جو قرآن مجید کے بارے میں سورۃ البقرۃ میں دو مختلف مقامات پر آئے ہیں. قرآن اپنی جگہ ہر نوع بشر کے لیے ہدایت کاملہ اور ہدایت تامہ ہے. اس میں تاقیامِ قیامت ہر دَور میں تمام نوع انسانی کے لیے ہدایت و رہنمائی موجود ہے اور یہ ہر اعتبار سے اکمل و اتم ّ ہے.

چنانچہ قرآن کو ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ کہا گیا ہے. (البقرہ:۱۸۵ ) یہ علی الاطلاق ہے‘ یعنی یہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے. لیکن سورۃ البقرۃ کی دوسری آیت میں اس قرآن کو’’ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ قرار دیا گیا ہے. گویا اس ہدایت سے استفادہ کرنے کی ایک شرط ہے ‘اور وہ تقویٰ ہے. یعنی کچھ خدا ترسی ہو‘ کچھ اللہ کی طرف انابت ہو‘نیکی اور بدی کا کوئی شعور بیدار ہو ‘ انسان خیر و شر میں امتیاز کرتا ہو. چنانچہ تقویٰ کا اساسی سرمایہ اور بنیادی اثاثہ اگر موجود نہیں ہو گا تو انسان اس قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کر سکے گا. قرآن اپنی جگہ ہدایتِ کاملہ و تامہ ہے‘ لیکن اس سے استفادے کے لیے جو شرط خود انسان کے باطن میں پوری ہونی چاہئے وہ شرط تقویٰ ہے ‘لہذا سورۃ البقرۃآیت نمبر ۲ میں ارشاد ہوا : الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ اور آیت نمبر ۱۸۵ میں فرمایا: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ

آپ میں سے شاید بعض حضرات کے علم میں ہو کہ سوامی دیانند سرسوتی نے اپنی بدنامِ زمانہ کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ کے چودھویں باب میں قرآن مجید پر جو اعتراضات کیے تھے ان میں پہلا اعتراض یہی تھا کہ یہ عجیب کتاب ہے جو کہتی ہے کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے. متقیوں کو ہدایت کی کیا ضرورت ہے؟ ہدایت کی ضرورت تو گمراہوں ‘ فاسقوں اور فاجروں کو ہے.

قرآن مجید کا سرسری مطالعہ کرنے والوں کو یہ اشکال پیش آ سکتا ہے. اس لیے کہ ہمارے ذہنوں میں تقویٰ کا جو تصور ہے‘ وہ یہ ہے کہ انسان بہت نیک ہو‘ بہت خداترس ہو‘ اور وہ ہر اعتبار سے اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے ہوئے ہو. یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی باتوں تک میں محتاط ہو. ایسے شخص کو ہم متقی کہتے ہیں.

لہذا ان معانی میں جب لفظ تقویٰ سامنے آتا ہے تو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے بارے میں واقعتا ذہن میں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے. وہ اشکال انتہائی بھونڈے طریقے پر اُس شخص نے پیش کیا. تو اِس کا حل یہی ہے کہ قرآن مجید درحقیقت ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہی ہے ‘لیکن اس سے استفادے کے لیے شرط لازم یہ ہے کہ تقویٰ کا کچھ نہ کچھ بنیادی اثاثہ موجود ہو. ایک شخص میں اگر نیکی اور بدی اور خیر و شر کی تمیز کی کچھ بھی پونجی باقی ہے تو گویا وہ بنیاد موجود ہے جس پر ہدایت کا دارومدار ہے.

آج کل کی تعمیرات کی ٹیکنیک میں اسے starter کہتے ہیں یعنی اگر آپ کو عمارت کا کالم مزید اوپر لے جانا ہے تو کچھ سریئے باہر نکلتے چھوڑ دیئے جاتے ہیں تاکہ اوپر کے کالم کو چڑھاتے وقت اس کا جوڑا اس کے ساتھ لگ جائے. پس جس طرح کسی عمارت کے کالم کو مزید اُوپر لے جانے کے لیے starter کا ہونا ضروری ہے‘ اسی طرح قرآن مجید سے استفادے کے لیے تقویٰ یعنی خیر و شر اور نیکی و بدی کی کچھ نہ کچھ تمیز انسان میں ہونی ضروری ہے. 

بعینہٖ یہی بات اسوۂ رسول  کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے. اس لیے کہ جناب محمد رسول اللہ  پوری نوع انسانی کے لیے بھی مجسم ہدایت ہیں. آپ کے لیے قرآن مجید میں لفظ نور آیا ہے‘ بایں معنی کہ آپؐ نورِ ہدایت ‘ شمع ہدایت اور سراجاً منیراً ہیں. اسی طرح قرآن مجید آپؐ :کو رحمۃ للعالمین قرار دیتا ہے. بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ قرآن مجید کتابِ متلو ہے اور نبی اکرم‘ قرآنِ مجسم ہیں جیسا کہ آپؐ کی وفات کے بعد چند لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپؐ کی سیرت کے متعلق دریافت کیا تھا تو آپؓ نے جواب میں فرمایا تھا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ لیکن آپؐ کے اس اُسوہ نور اور شمع ہدایت سے روشنی حاصل کرنے کے لیے بھی چند شرائط کو پورا کرنا لازم ہے .اگرچہ آپؐ اپنی جگہ شمع ہدایت ہیں اور جو چاہے آپؐ کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کر لے‘لیکن اس کے لیے چند شرائط ہیں.ان شرائط کو یہاں بایں الفاظ بیان کیا گیا:

لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱
’’ہر اُس شخص کے لیے ( نبی اکرم: کی حیاتِ طیبہ میں اعلیٰ و ارفع نمونہ ہے) جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے.‘‘

آیت کے اس حصے میں دو چیزیں جمع ہو گئی ہیں. ایک ایمان باللہ اور دوسرا ایمان بالآخرۃ. ہمارے دین کے تین بنیادی ایمانیات ہیں‘ جو گویا تین Pillars of Faith ہیں. (۱) ایمان باللہ یا توحید(۲) ایمان بالآخرہ یا معاد‘ اور(۳) ایمان بالرسالت. ایمان بالرسالت سے نبی اکرم  کی شخصیت کا تعلق ہے. یہ ایمانیات ثلاثہ باہم گتھے ہوئے ہیں. اگرکسی انسان کا اللہ پر ہی یقین نہیں یا اس میں شرک شامل ہے تو وہ نبی اکرم  کی ذاتِ اقدس کو اپنے لیے نمونہ کیسے بنا لے گا! اور اگر اسے آخرت کا یقین نہیں تو پھر وہ آنحضرت  کے نقشِ قدم کی پیروی کیسے کرے گا! یہ پہلی دو چیزیں ہوں گی تو تیسری بات کا امکان پیدا ہو گا. یعنی وہ شخص جو اللہ سے غافل ہو یا کبھی کبھار یا اتفاقاً اللہ کا نام لینے والا ہو‘ اور جو اللہ سے ملاقات کی حقیقی امید دل میں نہ رکھتا ہو‘ اسی طرح جس شخص کو یوم آخرت اور محاسبۂ اُخروی کی کوئی توقع نہ ہو‘ گویا جو ان دو ایمانیات سے تہی دست ہو‘ اس کے لیے آنحضرت  کی سیرتِ مطہرہ اسوہ اور نمونہ نہیں بن سکتی. آنحضور‘ کے اُسوۂ حسنہ کا اتباع وہی شخص کر سکے گا جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا امیدوار بھی ہو اور جس کو یہ دھڑکا بھی لگا ہوا ہو کہ آخرت ہونے والی ہے‘جہاں کی کامیابی کا سارا دارومدار اسی بات پر ہو گا کہ اس دنیا کی زندگی میں اس کا طرزِعمل اور رویہ اللہ کے رسول  سے کس درجے قریب تر رہا ہے. لہذا بات صاف کر دی گئی کہ:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾ 

اس پوری آیت کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ‘ کی زندگی اس شخص کے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور وہی اس کا اتباع کر سکے گا اور وہی آپ کے نقش قدم پر چل سکے گا جو اللہ کا طالب ہو اور جو آخرت میں سرخروئی چاہتا ہو اور جو کثرت کے ساتھ اللہ کو یاد کرنے والا ہو. یہاں رجاء کا جو لفظ آیا ہے وہ نہایت لطیف ہے. اس میں طالب ہونے کا مفہوم بھی شامل ہے‘ اور اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہونے کا مفہوم تو بالکل واضح ہے جس کی وضاحت وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ سے مزید ہو گئی. یہاں امیدواری میں اللہ کی رحمت‘ اللہ کی شفقت‘ اللہ کی نظر عنایت کے جملہ مفاہیم شامل ہیں. جیسے سورۃ الکہف کی آیت ۲۸ میں فرمایا : اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ ’’وہ لوگ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام ‘اپنے ربّ کے چہرۂ انور کے طلبگار بن کر‘‘ وہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں اوراس کی رضا و خوشنودی کے طالبین ہیں.

یہاں فرمایا : لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ’’جو اللہ کی رضا کا امیدوار ہے اور جو یومِ آخرت میں سرخروئی کی توقع رکھتا ہے‘‘ گویا اسے یقین ہے کہ یہ دن آ کر رہے گا اور جزا و سزا کے فیصلے ہو کر رہیں گے. وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ’’اور وہ اللہ کو یاد رکھتا ہو کثرت کے ساتھ.‘‘ یعنی وہ ہر کام اور معاملے میں اللہ کے احکام اور اس کے اوامر و نواہی کا التزام و اہتمام کرتا ہو اور زبان و قلب سے بھی اللہ کو یاد کرتا ہو. وہ اس بات کو ہر لمحہ اور ہر لحظہ قلب و شعور میں مستحضر رکھتا ہو کہ اسے یوم آخرت میں اللہ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنی اس دُنیوی زندگی کا حساب دینا ہے. یہ تین شرطیں پوری ہوں گی تو اسوۂ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر کسی درجے عمل پیرا ہونے کا امکان پیدا ہو گا.