یہ اسوۂ حسنہ کیا ہے جس کا اس سورۃ الاحزاب میں ذکر کیا گیا ہے ؟اسے ہمیں ذرا تفصیل سے سمجھنا ہو گا. یوں تو نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی ہر مسلمان کے لیے ہر اعتبار سے ایک کامل نمونہ ہے. ایک باپ کے لیے آپﷺ بہترین نمونہ ہیں کہ ایک باپ کو اپنی اولاد کے ساتھ کیا طرزِعمل اختیار کرنا چاہئے. ایک شوہر کے لیے آپؐ کامل نمونہ ہیں کہ اسے اپنے گھر میں اپنی بیوی یا بیویوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے. ایک پڑوسی کے لیے آپﷺ اُسوۂ کاملہ ہیں. ایک مرشد و مزکی ‘ ہادی و داعی اور مبلغ کے لیے آپﷺ اُسوۂ کاملہ ہیں. ایک حکمران اور سربراہ ریاست کے لیے آپ ؐاسوۂ کاملہ ہیں. ایک منصف اور قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے لیے آپؐ اسوۂ کاملہ ہیں. غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی اکرمﷺ کا اسوۂ حسنہ اکمل و اتم نہ ہو.
میں کئی مرتبہ سیرت کی تقاریر میں اپنے اس شدتِ تاثّر کو بیان کر چکا ہوں کہ سیرتِ مطہرہ کے مطالعے سے میں مبہوت ہو جاتا ہوں اور میرے قلب پر نبی اکرم ﷺ کی شخصیت مطہرہ کا یہ گہرا تاثر ثبت ہوتا ہے کہ اس قدر جامع شخصیت تو ہمارے تصور میں بھی آنی ممکن نہیں. کیا زندگی کا کوئی گوشہ ایسا ہے جو اسوۂ حسنہ کے اعتبار سے نامکمل و ناتمام اور خالی نظر آتا ہو! آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہر پہلو سے مصروف ترین اور گھمبیر ترین تھی. ہمارا حال تو یہ ہو گیا ہے کہ جو مسجد کا امام ہو وہ عموماً خطابت نہیں کرتا‘ خطیب علیحدہ ہونا چاہئے. جو خطیب صاحب ہیں وہ پانچ وقت کی نماز پڑھانے کی پابندی کیسے قبول کر لیں گے! گویا کہ امامت علیحدہ‘ خطابت علیحدہ. پھر مدرس علیحدہ مزید برآں جو صاحب درس کے فرائض انجام دے رہے ہوں‘ عام طور پر ان سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ یہ تزکیہ و تربیت بھی کریں گے. اس کے لیے کہیں اور جائیے. یہاں سے تو علم حاصل کر لیجئے‘ مدرسین قال اللہ تعالیٰ اور قال رسول اللہ ﷺ پڑھا دیں گے‘ تزکیۂ نفس کے لیے عموماً کسی دوسرے مزکی و مرشد کی تلاش کرنی ہو گی‘ جن کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ مرحلہ طے کرنا ہو گا پھر جو لوگ ان شعبوں سے متعلق ہیں ممکن نہیں کہ وہ آپ کو کہیں سپہ سالار بھی نظر آئیں!یا کم از کم کچھ انتظامی امور کی انجام دہی میں ہی مصروف ملیں ! ایسے لوگ اگر لکھنے پڑھنے اور تدریس و تعلیم میں زندگی بھر لگے رہے یا دعوت و تبلیغ ہی میں پوری زندگی کھپا دی اور ان میدانوں میں انہوں نے کوئی قابل قدر کارنامہ انجام دیا تو عموماً ایسے لوگوں کا گھر گرہستی والا کھاتہ کورا نظر آئے گا. معلوم ہو گاکہ ساری عمر شادی ہی نہیں کی جب کہیں جا کر یہ کام انجام دیئے ہیں.
جناب محمد رسول اللہﷺ کی شخصیت میں جو جامعیت ہے وہ پوری انسانی تاریخ حتیٰ کہ انبیاء و رُسل کی مقدس جماعت میں بھی کہیں اور نظر نہیں آئے گی. آپﷺ مسجد نبوی کے پنج وقتہ امام بھی ہیں اور خطیب بھی ہیں‘ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے لیے مدرس و معلم بھی ہیں‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے آپ مزکی و مربی بھی ہیں . آپؐ ہی سپہ سالار بھی ہیں. صلح کی گفتگو ہو رہی ہے تو آپﷺ ہی کر رہے ہیں. باہر سے جو وفود آ رہے ہیں تو ان سے آپؐ ہی معاملہ کر رہے ہیں. مقدمات و تنازعات ہیں تو وہ آپؐ کی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں. تصور تو کیجئے کہ کون سا میدان اور کون سا پہلو ہے جہاں یہ محسوس ہو کہ ہمیں حضورﷺ کی زندگی میں نمونہ نہیں مل سکتا ؟ حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کا جائزہ لیجئے بغیر کسی تنقیص کے میں یہ عرض کر رہا ہوں.
اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بچائے کہ میں کسی نبی کی توہین کروں‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک باپ کے لیے ان کی زندگی میں کوئی نمونہ نہیں‘ ایک شوہر کے لیے ان کی زندگی میں کوئی نمونہ نہیں. کسی قاضی‘ کسی سپہ سالار‘ کسی فاتح اور کسی صدر ریاست کے لیے ان کی زندگی میں کوئی نمونہ نہیں. آنجناب ؑایک درویش ‘ ایک مبلغ اور ایک مربی و مزکی کی حیثیت سے تو ایک مکمل نمونہ ہیں‘ لیکن زندگی کے دوسرے شعبے اور پہلو خالی نظر آ رہے ہیں. لہذا اس اعتبار سے واقعہ یہ ہے کہ میرے قلب و ذہن اور شعور و ادراک پر جس چیز کا گہرا تاثر ہے وہ آنحضور ﷺ کی حیات طیبہ کی اسی جامعیت کا ہے. میں جب گرد و پیش کا جائزہ لیتا ہوں اور حالات کو خود اپنے اوپر وارد کرتا ہوں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم ایک ذمہ داری کا بھی حق ادا نہیں کر پاتے اور اسے نباہ نہیں پاتے‘ جبکہ وہاں کیا عالَم ہے! کون سی ذمہ داری ہے جو نہیں اٹھائی ہوئی ہے اور اس کو کماحقہ پورا نہیں کیا ہے! کون سی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی میں کوئی کمی رہ گئی ہو! الغرض نبی اکرمﷺ کا اسوۂ حسنہ ہر اعتبار‘ ہر پہلو اور ہر حیثیت سے اکمل و اتم ہے حضورﷺ کا سب سے بڑا معجزہ تو اللہ کا نازل کردہ قرآن حکیم ہے اور دوسرا عظیم معجزہ خود نبی اکرمﷺ کی اپنی ذات اور شخصیت ہے اور اس کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے اس قدر گھمبیر اور اتنی ہمہ گیر زندگی گزاری ہے کہ ہمارے ہوش اور حیطۂ خیال میں بھی نہیں آتی یہ بھی خاصہ نبوت ہے اور یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت شدہ ہیں.
حاصل کلام یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے کے اعتبار سے ایک اسوۂ کامل ہیں. لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن مجید میں جب یہ لفظ ’’اسـوۃٌ حسنۃٌ‘‘ آیا ہے تو کس سیاق و سباق اور سلسلۂ عبارت (context) میں آیا ہے اور اس حوالے سے آپؐ کا اصل اور خصوصی اُسوہ کون سا ہے! یہ اسوۂ حسنہ وہ ہے جو ہمیں غزوۂ احزاب میں نظر آتا ہے. وہ صبر و ثبات‘ اللہ کے دین کے لیے سرفروشی و جان فشانی کہ جان نثاروں کے شانہ بشانہ اور قدم بقدم ہی نہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہر مشقت میں آپﷺ بھی شریک تھے. کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپﷺ نے نہ اٹھائی ہو. یہ نہیں تھا کہ کہیں زرنگار خیمہ علیحدہ لگا دیا گیا ہو ‘ جہاں قالین بچھا دیئے گئے ہوں اور وہاں حضورﷺ آرام فرما رہے ہوں اور مورچھل جھلے جا رہے ہوں جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم خندق کھودنے کے لیے کدالیں چلا رہے ہوں. بلکہ معاملہ یہ تھا کہ خندق کھودنے والوں میں آپ‘ﷺ بھی شامل ہیں. کدالیں چلاتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ بیک آواز کہہ رہے ہیں : اَللّٰھُمَّ لَا عَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ اور نبی اکرم ﷺ ان کے ساتھ آواز میں آواز ملا کر فرما رہے ہیں: فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ. یعنی سردی اور بھوک کی تکالیف اٹھانے میں آپؐ برابر کے شریک ہیں.اس خیال سے کہ بھوک اور نقاہت سے کہیں کمر دہری نہ ہو جائے‘ صحابہ کرام ث نے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے ہیں. ایک صحابی ؓ حضورﷺ کو اپنے پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھاتے ہیں .
اس پر سرورِ عالم محبوب رب العالمین‘ خاتم النبیین والمرسلینﷺ اپنا کرتا اٹھاتے ہیں تو اُن صحابی ؓ کو شکم مبارک پر دو پتھر بندھے نظر آتے ہیں. محاصرے کے دوران آپﷺ ہر وقت وہاں موجود رہے اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ تکان سے چور ہو کر پتھر کا تکیہ بنا کر تھوڑی دیر کے لیے آرام کی خاطر لیٹ جاتے تھے‘ اسی طرح حضورﷺ بھی وہیں کھلی زمین پر کچھ دیر کے لیے پتھر پر سر رکھ کر آرام فرما لیا کرتے تھے. یہ نہیں تھا کہ آپﷺ نے استراحت کے لیے اپنے واسطے کوئی خصوصی اہتمام فرمایا ہو بنی قریظہ کی غدّاری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے اہل و عیال مبتلا تھے‘ اسی سے آپؐ کے اہل بیت بھی دوچار تھے. اپنے لیے یا اپنے اہل و عیال کے لیے آپؐ نے حفاظت کا کوئی خصوصی انتظام نہیں کیا تھا.
یہ ہے اصل صورت واقعہ اور صورت حال‘ جس میں فرمایا گیا کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ اورہم چھوٹی چھوٹی سنتوں کی پیروی کر کے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم اسوۂ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر عمل پیرا ہیں! ویسے تو ہر چھوٹی سے چھوٹی سنت بھی وقیع اور لائق اتباع ہے. لیکن اگر یہ چھوٹی سنتیں اس اصل اور بڑے اسوہ کے لیے اوٹ بن جائیں تو یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے. ان چھوٹی سنتوں پر عمل کرنے کے باعث کسی کو یہ مغالطہ اور فریب ہو سکتا ہے کہ ’’میں بڑا متبعِ سنت ہوں. میں نے داڑھی بھی چھوڑ رکھی ہے‘ لباس میں بھی میں سنت کو پیش نظر رکھتا ہوں. میں نے یہ بھی اہتمام کر رکھا ہے اور وہ بھی اہتمام کر رکھا ہے‘‘. دیکھنا یہ ہے کہ یہ اسوہ بھی زندگی میں ہے یا نہیں جو سورۃ الاحزاب میں بیان ہوا ہے! دعوت و تبلیغ اور اقامت و اظہار دین الحق کے لیے سرفروشی‘ جاں فشانی اور عملی جدوجہد اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات‘ تکالیف اور مصائب کو برداشت کرنا اگر زندگی میں یہ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے. پھر تو درحقیقت یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں آڑ بن گئی ہیں. اس تل کے پیچھے پہاڑ اوٹ میں آ چکا ہے .اور ہمارا اِس وقت سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ نبی اکرم :ﷺ کا اصل ’’اسوہ‘‘ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے (الا ماشاء اللہ) اور وہ اسوہ یہ ہے جو سورۃ الاحزاب میں نہایت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور غزوۂ احزاب کے حالات کے بیان میں قرآن حکیم اس کی طرف مسلمانوں کی نگاہوں کو خصوصی طور پرمرتکز (focus) کرتا ہے.