اگلی آیت میں فرمایا: مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾
’’اہل ایمان میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے. پس ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی (اپنی باری آنے کا) منتظر ہے. اور انہوں نے (اپنے رویئے اور طرزِ عمل میں) کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘.
کاش اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرما دے!
یہ آیت اس امر کی متقاضی ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ پر غزوۂ احزاب کے پس منظر میں غور و تدبر کیا جائے اللہ تعالیٰ ان اہل ایمان کی مدح و ستائش فرما رہا ہے کہ ان میں ایسے بھی جواں مرد اور باہمت لوگ ہیں جو اپنے عہد کو پورا کر چکے. یہاں رِجَالٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو رَجُلٌ کی جمع ہے. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین اس سے خارج ہو گئیں. قرآن حکیم میں اہل ایمان کو بالعموم مذکر کے صیغے میں خطاب کیا گیا ہے. ایسا بغرضِ تغلیب ہوتا ہے اور اس میں آپ سے آپ خواتین بھی شامل ہوتی ہیں.یہاں لفظ ’’رِجَال‘‘ اپنی اس معنویت کے لئے آیا ہے کہ اس دنیا میں شیطانی وساوس سے بچ کر دین پر کاربند رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ بلکہ بڑی ہمت اور جواں مردی کا کام ہے. یہی مضمون سورۃ النور کے پانچویں رکوع میں بایں الفاظ آیا ہے :
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ (آیت ۳۷)
’’ان میں ایسے باہمت و جواں مرد بھی ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز اورا دائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی. وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی‘‘.
اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ یہ کیفیات عورتوں میں نہیں ہو سکتیں. خواتین میں صحابیات ہیں‘اُمہات المؤمنین ہیں‘ رضوان اللہ تعالیٰ علیہن اجمعین. پھر بڑی بڑی متقی‘ صالح‘ صابر‘ عابد و زاہد اور مجاہد خواتین اُمت میں پیدا ہوئی ہیں. ان میں ایک اللہ والی خاتون حضرت خنساء (رضی اللہ عنہا)بھی ہیں‘ جن کے چار جوان بیٹے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں ایران کی جنگ قادسیہ میں شہید ہو گئے اور انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا. ایک خاتون وہ بھی ہیں کہ جب غزوۂ اُحد میں عارضی ہزیمت ہوئی اور نبی اکرمﷺ کی شہادت کی افواہ مدینہ تک پہنچی تو وہ بے تابانہ میدانِ اُحد میں آتی ہیں. ان کو خبر دی جاتی ہے کہ تمہارے والد شہید ہو گئے مگر وہ پوچھتی ہیں کہ یہ بتاؤ کہ رسول اللہ‘ﷺ کا کیا حال ہے ؟ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا شوہر بھی شہید ہو گیا. وہ کہتی ہیں کہ کوئی بات نہیں‘ مجھے یہ بتاؤ کہ حضورﷺ کا کیا حال ہے؟ ان کو بتایا جاتا ہے کہ تمہارا بیٹا بھی شہید ہو گیا. وہ اللہ کی بندی کہتی ہیں کہ مجھے حضورﷺ کے بارے میں بتاؤ. اور جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ بخیریت ہیں تو وہ کہتی ہیں الحمدللہ!اس خوشخبری کے آگے سب کچھ ہیچ ہے باپ‘ شوہر اور بیٹا تو مرتبۂ شہادت پر فائز ہو کر کامران و کامیاب ہو گئے. الغرض ہماری تاریخ میں ایسی خواتین کی بے شمار نظائرموجود ہیں. وہ جو کہا گیا ہے کہ ؎
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
نہ ہر زن زن است و نہ ہر مَرد مَرد
چنانچہ اس بات کو اس مقام پر ذہن میں رکھئے کہ یہاں رجال سے جواں مرد و باہمت لوگ مراد ہیں‘ خواہ وہ مرد ہوں خواہ عورتیں.
ان آیات سے ہمارے سامنے یہ باتآتی ہے کہ بندۂ مؤمن کی زندگی کے دو رخ ہیں ایک طرف اللہ کے ساتھ دلی تعلق اور لگاؤ اور اس میں ثبات اور دوسری طرف اللہ کے دین کے لئے جہاد و مجاہدہ اور اس میں صبر و ثبات اور استقلال و استقامت. سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷ میں‘ جو آیۂ برّ کے نام سے ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہے‘ بر و تقویٰ کی حقیقت کے ضمن میں ارشاد ہوا کہ اللہ کے نزدیک صادق اور نیک لوگ وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکو ٰۃ ادا کرتے ہیں‘ اور جب کوئی عہد و معاہدہ کرتے ہیں تو اس کو پورا کرتے ہیں ‘اور اللہ کی راہ میں تنگی اور مصیبت نیز جہاد و قتال کے موقع پر انتہائی صبر کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں. ایک بندۂ مؤمن کی زندگی کے یہ دو رُخ ہیں اور ان دونوں کے اعتبار سے انتہائی صبر و استقلال کی ضرورت ہے ‘لہذا یہاں فرمایا : مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ’’ اہل ایمان میں وہ جواں مرد اور باہمت لوگ بھی ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اس عہد کو جو انہوں نے اپنے اللہ سے کیا تھا‘‘.
اب غور کیجئے کہ یہ عہد کون سا ہے؟ اسلام خود ایک بہت بڑا عہد ہے. پھر ہم نماز کی ہر رکعت میں اس کا اقرار اور اس کی تجدید کرتے ہیں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اللہ کے ساتھ اس سے بڑا عہد ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے اور صرف تجھ ہی سے طالبِ اعانت و دستگیری ہیں اور رہیں گے. ہم نے اپنا سب کچھ تیرے سپرد اور تیرے حوالے کر دیا ہے. ؏سپردم بہ تو مایۂ خویش را!ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ’’ بلاشبہ اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لئے ہیں‘‘. اب انہیں اس سودے میں پورے اتر کر دکھانا ہے. کہنے کوکہہ دیا‘ پڑھنے کو پڑھ لیا ‘ سننے کو سن لیا ‘لیکن پورا اتر کر دکھانا قیامت ہے. کہنے کو توشاعر نے بھی کہہ دیا کہ ؎
جان دی ‘ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!
لیکن اس پر پورا اترنا کوئی آسان بات نہیں پس یہاں ان اہل ایمان کی مدح و ستائش ہو رہی ہے جنہوں نے اس آزمائش و ابتلاء میں اپنے آپ کو پورا تول کر دکھا دیا. لہذا ان کی شان میں فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ آگے فرمایا: فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ ’’پس ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے‘‘ یعنی اللہ کی راہ میں جان دے کر سرخرو اور سبک دوش ہو گئے وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ’’اور ان میں وہ بھی ہیں جو منتظر ہیں .‘‘وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ وقت آئے جب ہم اپنے اس عہد کو پورا کر کے سرخرو ہو جائیں اور اپنے شانوں پر رکھا ہوا بوجھ اتروا کر سبک دوش ہو جائیں اگر گردن کٹ گئی تو شانوں کا بوجھ اتر گیا اور سبک دوشی حاصل ہو گئی.
نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
مَنْ سَاَلَ اللّٰہَ الشَّھَادَۃَ بِصِدْقٍ بَلَّغَہُ اللّٰہُ مَنَازِلَ الشُّھَدَاءِ وَاِنْ مَاتَ عَلٰی فِرَاشِہٖ (مسلم‘ کتاب الامارۃ)
’’جو شخص صدق دل سے اللہ سے شہادت طلب کرتا رہے گا تو چاہے اس کی موت بستر پر واقع ہو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مراتب تک پہنچا دے گا‘‘.
یہ اصل میں یَنْتَظِرُ والی کیفیت کی ایک طرح کی شرح ہے. البتہ اس انتظار کی کیفیات اور شرائط ہوں گی قتال کا مرحلہ کیسے آئے گا جبکہ آپ نے جہاد ہی کی کوشش شروع نہیں کی؟ اگر آپ نے دین کے لئے محنت و مشقت کے میدان میں قدم ہی نہیں رکھا‘ آپ اقامتِ دین کے لئے جدوجہد کرنے والی کسی تنظیم و جماعت سے وابستہ ہی نہیں ہوئے تو پھر قتال کا مرحلہ کہاں سے آ جائے گا جو جہاد کی آخری اور چوٹی کی منزل ہے؟ یہ مرحلہ تو اُس وقت آ سکے گا جب آپ کسی ایسی منظم دعوت اور تحریک سے عملاً وابستہ ہوں جو اقامت دین کے لئے کوشاں ہو. غور کیجئے ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تو ہیں جن کا ہجرت سے قبل انتقال ہو گیا‘لیکن وہ دعوت و تبلیغ اور تکبیر رب میں نبی اکرمﷺ کے دست و بازو رہے ہیں. اپنی جانیں‘ اپنا مال ‘اپنے اوقات‘ اپنی توانائیاں اور اپنی صلاحیتیں لگاتے رہے ہیں‘ کھپاتے رہے ہیں.
وہ اگر غزوۂ بدر یا اُحد تک پہنچ گئے ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے! اُن کا سابقہ طرزِعمل ثابت کرے گا کہ وہ اپنے موقف میں کتنے ثابت قدم اور سرگرم عمل رہے ہیں.جو شخص قدم قدم پر پیچھے ہٹ رہا ہو اور پیسے پیسے کو سینت سینت کر رکھ رہا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اگر کبھی وقت کا تقاضا ہو تو وہ جان و مال کی بازی لگا دے گا؟ پس جو بندۂ مؤمن صدقِ دل سے شہادت کا طالب ہو اور اللہ کی راہ میں نذرِ جاں پیش کرنے کا آرزومند ہواُس کی زندگی میں اس کے عملی مظاہر ے آ کر رہیں گے. اگر وہ جہاد فی سبیل اللہ کی وادی میں قدم رکھ چکا ہے اور شہادت کا طلبگار بھی ہے تو وہ اس بات کی توقع رکھے کہ اگر بستر پر بھی اس کی موت آئے تو اسے مرتبۂ شہادت مل سکے گا. اس کی مثال ایسی ہے کہ جس نے کاغان کا سفر شروع کیا ہے تو اس کے لئے بابو سرپاس تک بھی پہنچنے کا امکان ہو گا. لیکن اگر کوئی بالاکوٹ سے آگے بڑھنے اور وادیٔ کاغان میں قدم رکھنے کے لئے ہی تیار نہیں تو بابو سرپاس کب آئے گا؟ بیٹھے بیٹھے بابوسر پاس کی تمنا کرتے رہنا تو سوائے اپنے آپ کو دھوکا دینے کے اور کچھ نہیں. یہ تو ایسا ہی ہے کہ ؏ خود را بہ فریبد کہ خدارا بہ فریبد ایسا شخص خود اپنے آپ کو فریب دے رہا ہے یا خدا کوفریب دے رہا ہے؟ علامہ اقبال مرحوم نے خوب کہا ہے کہ : ؎
خبر نہیں نام کیا ہے اس کا‘ خدا فریبی کہ خودفریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ!
تو اس دھوکے کے انداز میں شہادت کی تمنا نہ ہو بلکہ عمل کے ساتھ صدق دل سے یہ تمنا ہو تو بستر کی موت بھی ان شاء اللہ شہادت کی موت ہو گی. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت بستر پر آئی ہے جن کی زندگی ہمیشہ جنگوں کے اندر بیتی ہے .اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ آنجناب ؓ کوبارگاہِ رسالت مآبﷺ سے ’’سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ‘‘ کا خطاب ملا تھا.لہذا ان کی شہادت گویا اللہ کی تلوار ٹوٹنے کے مترادف ہوتی. آپؓ کو شہادت کی موت کی بڑی تمنا تھی اور اسلام لانے کے بعدآپؓ کی زندگی جہاد و قتال میں گزری ہے .اگرچہ ان کی شہادت کی آرزو بظاہر پوری نہیں ہو ئی لیکن نبی اکرم ﷺ کے مذکورہ بالا قول مبارک اور نوید کے مطابق ان کی بستر کی موت بھی شہادت کی موت ہے .
اس آیت کے آخر میں فرمایا: وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً ’’انہوں نے اپنے رویئے میں سرِمو تبدیلی نہیں کی‘‘ ’’تَبْدِیْلاً‘‘ یہاں مفعول مطلق کے طور پر آیا ہے اور اس میں مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو گیاہے . یعنی ان اہل ایمان نے بالکلیہ اپنے عہد اور وعدے کو ایفاء کیا اور اس میں سرِمو تبدیلی نہیں کی ‘بلکہ اس کو پوری طرح نبھایا اور یہ جان لیجئے کہ ہمارے اور اس معاشرے میں بڑا بنیادی فرق یہی تھا. وہ عہد کے سچے تھے اور ہم عہد کرتے ہیں تو اس کا ایفاء نہیں کرتے ‘ اس کو نبھاتے نہیں. ابھی عہد کریں گے اور ہاتھ میں ہاتھ دیں گے لیکن دو دن کے اندر اس کو توڑ دیں گے. یہ جو ہمارے کردار میں گھن لگ گیا ہے‘ اس کے سبب سے ہماری شخصیتیں کھوکھلی ہو چکی ہیں. جبکہ اُس معاشرے کی کیفیت یہ تھی کہ ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے تو ہر چہ بادا باد‘ عہد کوبہرصورت ایفاء کرنا اور نبھانا ہے‘ پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہیں.
یہ کردار اُس معاشرے میں ایّامِ جاہلیت میں بھی موجود تھا. لوگ بڑی زیادتی کرتے ہیں کہ اُس دور کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ جیسے اُس معاشرے میں ظہورِ اسلام سے قبل سرے سے کوئی خیر تھا ہی نہیں. میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اس بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے سے بہت سے اعتبارات سے وہ معاشرہ کہیں بہتر تھا. ان کے ہاں اگر کوئی دشمن بھی مہمان کے طور پر مقیم ہو گیا ‘چاہے وہ باپ کا قاتل ہے‘ تو اس پر آنچ نہیں آئے گی اور اس حالت میں انتقام نہیں لیا جائے گا.
جسے بھائی کہہ دیا اس کے لئے جان و مال سب حاضر ہے. جس کو پناہ دے دی ہے اس کے لئے پورے قبیلے کی مخالفت گوارا کر لی جائے گی اور اس کی مدافعت میں اپنی جان پر کھیل جائیں گے. وہاں حال یہ تھا کہ اگر کسی کی اطاعت قبول کر لی ہے تو اب اس اطاعت سے کبھی سرتابی نہیں کی جائے گی. یہ بنیادی کردار ہوتا ہے . ہم اِس وقت جن اسباب کی بنا پر دنیا میں ذلیل و رسوا اور پامال ہو رہے ہیں‘ ہمارا کوئی وقار نہیں ہے ‘ کوئی باعزت مقام ہمیں حاصل نہیں ہے تو اس کا اصل سبب یہی ہے کہ ہمارا کردار پست ہو چکا ہے اور ہم ‘الاّ ماشاء اللہ‘ بنیادی اخلاقیات سے بھی تہی دست ہو چکے ہیں. ہمارے کردار میں پختگی نہیں ہے‘ بلکہ انتہائی بودا پن موجود ہے. عہد کر کے نبھانے اور اس کو وفا کرنے کی خو اور ارادہ نہیں ہے. جھوٹے وعدے ہم کرتے ہیں اور اچھے اچھے اور بڑے بڑے سمجھدار لوگ اس کمزوری میں مبتلا ہیں. یہ ہمارے کردار کی ناپختگی اور بودے پن کا بہت بڑا سبب ہے.
ہمارے دین میں ایفاءِ عہد کی جو اہمیت ہے اس کا تفصیل سے ذکر ہمارے منتخب نصاب میں متعدد بار آتا ہے. جیسے آیۂ بر (سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۷) کے درس میں اہل بر و تقویٰ کے اوصاف کے ضمن میں آتا ہے : وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا سورۂ بنی اسرائیل کے تیسرے رکوع کے درس میں بیان ہوتا ہے : وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ ۚ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً اسی طرح سورۃ المؤمنون کے پہلے رکوع کی آیت ۸ اور سورۃ المعارج کے پہلے رکوع کی آیت ۳۲ میں ایک شوشے کے فرق کے بغیر امانت اور عہد کے متعلق مؤمنینِ صالحین کے اوصاف کے ضمن میں آتا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاٰمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کی پوری طرح حفاظت کرنے والے ہیں‘‘(وہی فلاح یافتہ ہیں) یہ ہے کردار کی اہم ترین بنیاد کہ اہل ایمان اپنے عہد و پیمان اور قول و قرار کو وفا کرنے والے اور ان کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں.
ان مؤمنین صادقین کی اس استقامت و مصابرت کا جو نتیجہ نکلا اس کو اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے. فرمایا : لِیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ ’’تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے‘‘.یہاں لام‘ لامِ عاقبت ہے‘ یعنی کسی کام کا جو نتیجہ نکلتا ہے‘ اسے بیان کیا جا رہا ہے. میں نے اس صورت حال کے متعلق آپ کو بتایا تھا کہ یہ کڑا امتحان اس لئے لیا گیا تھا کہ جدا کر کے اور نمایاں کرکے دکھا دیا جائے کہ کون لوگ مؤمنینِ صادقین ہیں‘ کون لوگ ضعفِ ایمان میں مبتلا ہیں اور کون لوگ منافقین ہیں! یہی تو تمیز کرنی تھی ‘اور یہ تمیز اس لئے تھی کہ لِیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ