آگے یہاں تک فرما دیا کہ:
اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۸۰﴾ (آیت ۸۰)
’’(اے نبیؐ !) آپ خواہ ایسے لوگوں کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں‘ اگر آپؐ ستر بار بھی ان کو معاف کر دینے کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا‘ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا ہے ‘اور اللہ فاسقوں کو راہ یاب نہیں فرماتا.‘‘
حضور‘ﷺ کا اپنا مزاج ہے. آپؐ رؤف بھی ہیں اور رحیم بھی. لہذا آپ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ستر سے زیادہ باراستغفار کرنے سے ان کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں کرتا نبی اکرم‘ﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہوا؟ یہ کہ یہاں ستر سے مراد عدد یا ہندسہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک استعارہ ہے. یہاں ستر کا لفظ کثرت کے لئے آیا ہے کہ اب ان کے لئے توبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے. ان کو بار بار متوجہ کیا گیا. تقریباً دس سال بیت گئے. ان کو اصلاح کا پورا پورا موقع دیا گیا اس مقام پر ہی دیکھ لیجئے کتنے پیارے انداز میں فرمایا گیا: وَیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴿﴾ مؤمنینِ صادقین کے لئے تو قطعیت کے ساتھ فرمایا گیا: لِیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ لیکن منافقین کے لئے توبہ کرنے اور اپنے رویئے کی اصلاح کرنے کا موقع رکھا گیا اور ان کو مہلت دی گئی کہ ابھی ان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ فیصلے کا وقت نہیں آیا ہے‘ ابھی ان کے لئے راستہ کھلا رکھا گیا ہے. چونکہ ان کے لئے توبہ کا دروازہ ابھی کھلا رکھا گیا تھا لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفوریت اور رحمانیت کا بیان فرما دیا تاکہ منافقین بالکل مایوس نہ ہو جائیں. گویا ان کو دعوت دی جا رہی ہے کہ آؤ لوٹو اور رجوع کرو ؎
باز آ باز آ آں ہرچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ!
ایں درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ!