اب آگے چلئے. فرمایا: وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِھِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا اور’’ اللہ نے کفار کا مُنہ پھیر دیا اور وہ اپنے دل کی جلن اور غصہ و غیظ لئے یونہی پلٹ گئے اور ان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا‘‘. غور کیجئے کہ ان کفار کوکن کن حسرتوں کا مُنہ دیکھنا پڑا ہو گا. کیسے کیسے ساز و سامان کے ساتھ اور کیسی کیسی سازشوں کے نتیجے میں اتنی مختلف سمتوں سے لشکروں کاا یک جگہ آ کر جمع ہو جانا! اس کے لئے انہوں نے کیا کیا کھکھیڑ مول نہیں لئے ہوں گے؟ کتنی سفارتی بھاگ دوڑ اور چلت پھرت ہوئی ہو گی. کتنے ایلچی آئے اور گئے ہوں گے. کتنے پروگرام بنے ہوں گے! وہ کوئی ٹیلی کمیونیکیشن کا دور تو نہیں تھا. اُس زمانے کے عرب میں اس حملے کی تیاری اور پروگرام بنانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے ہوں گے‘ ذرا ان کا تصور تو کیجئے! لیکن ان کے متحدہ محاذ اور اُن کی تمام تر کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے خیمے اکھاڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے.اس پر ان کے دلوں میں غیظ و غضب کی جو آگ سلگ رہی تھی اس پر اللہ تعالیٰ تبصرہ فرما رہا ہے: وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِھِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو ان کے غیظ و غضب سمیٹ لوٹا دیا‘ اب وہ اس میں سلگیں اور جلیں ‘گویا ان کے دل آگ کی بھٹی بنا دیئے گئے وہ کوئی خیر نہ پا سکے‘کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے اور کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے. بغیر اس کے کہ اپنے مقاصد میں سے کچھ بھی انہیں ملا ہوتا‘ وہ ناکام اور خائب و خاسر ہو کر لوٹا دیئے گئے.

اسی آیت میں آگے فرمایا: وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ ’’اور اللہ کافی ہو گیا اہلِ ایمان کی طرف سے قتال کے لئے.‘‘قتال کا تو موقع ہی نہیں آیا. خندق میں جو کوئی بھی کودا مبارزت طلبی کے بعد واصل جہنم ہوا. باقی اللہ اللہ خیر صلا! سیرتِ مطہرہ کی کتب میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے پوری کوشش کی تھی لیکن انہیں خندق میں لشکر اتارنے کی ہمت نہیں ہوئی‘ کیونکہ مسلمان تیراندازوں نے اپنے تیروں کی بوچھاڑ سے ان کو ہزیمت پر مجبور کر دیا. لہذا اس غزوے میں دو بدو گھمسان کی جنگ‘ جیسے بدر اور اُحد میں ہوئی کا توموقع ہی نہیں آیا. یہ جنگ تو اللہ نے مسلمانوں کے لئے جیت لی. اصل میں تو مسلمانوں کا امتحان مقصود تھا‘ وہ ہو گیا. دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا‘یعنی اہلِ ایمان اور اہلِ نفاق جدا جدا ہو کر نمایاں اور ممیز ہو گئے. بس یہی مطلوب تھا. اب کفار کے لشکروں کے منہ موڑنے کے لئے اللہ کافی ہو گیا.

یہ آیت مبارکہ اس پُرجلال و پُرہیبت اسلو ب سے ختم ہوتی ہے کہ وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا ’’اللہ بڑی قوت والا‘ زبردست ہے‘‘. اس سے پہلے کی آیت میں درِ توبہ وا رکھا گیا تھا لہذا وہاں صفات کون سی آئیں؟ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا آیات کے آخر میں بالعموم اللہ کی جو صفات یا اسماء حسنیٰ آتے ہیں‘ ان کا مضمون سے گہرا ربط و تعلق ہوتا ہے‘ ان پر سے سرسری طور پر گزرنا نہیں چاہئے. یہاں دو صفات کی وساطت سے بتایا جا رہا ہے کہ اللہ بڑی قوت والا اور زبردست اختیار و اقتدار رکھنے والا ہے. اس کی ذاتِ والا صفات فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے‘ وہ جو چاہے کر گزرتا ہے. یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ پورے عرب کے مشرک قبائل اور یہود کے دو قبیلے متحدہ محاذ بنا کر اسلامی تحریک کو بالکلیہ نیست و نابود کرنے کے لئے مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے. لیکن تقریباً ایک ماہ کے طویل محاصرے کے بعد قدرتِ الٰہی کا کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ ایک رات سخت آندھی آئی جس میں سردی ‘ کڑک اور چمک تھی اور اتنا اندھیرا تھا کہ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ کا نقشہ تھا. ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا. آندھی نے دشمنوں کے خیمے تلپٹ کر دیئے تھے اور ان کے اندر شدید افراتفری مچ گئی تھی. مشرکین عرب کا یہ متحدہ محاذ قدرتِ الٰہی کا یہ کاری وار سہہ نہ سکا اور صبح صادق سے قبل ہی ہر ایک نے اپنی اپنی راہ پکڑی. صبح جب مسلمان اٹھے تو میدان خالی تھا جس کو دیکھ کر نبی اکرم  نے یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے تھے: لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ہٰذَا وَلٰـکِنَّکُمْ تَغْزُوْنَہُمْ ’’اب قریش تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے بلکہ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے.‘‘