آگے چلئے! غزوۂ احزاب کا جو ضمیمہ اور تتمہ ہے‘ یعنی غزوہ بنی قریظہ ‘اس کا نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس رکوع کی آخری دو آیات میں ذکر ہے. سیرت کی کتابوں میں اس کو علیحدہ عنوان کے تحت بیان کیا جاتا ہے‘ لیکن قرآن مجید میں اس کا ذکر یہاں غزوۂ احزاب کے ضمن میں ایک Appendix کے طور پر کیا گیا ہے

ان دو آیات کے مطالعے سے قبل رسول اللہ‘ کی تشریف آوری کے وقت مدینہ منورہ میں یہود کے جو تین قبائل آباد تھے ان کے متعلق تھوڑا سا نقشہ اپنے ذہن میں قائم کر لیجئے. یہ قبیلے تھے بنو قینقاع‘ بنونضیر اور بنو قریظہ. نبی کریم  کا کمال تدبر یہ تھا کہ مدینہ تشریف آوری کے فوراً بعد آپؐ نے ان تینوں قبائل کو ایک معاہدے کا پابند کر لیا تھا. حضورؐ کی اس کمالِ فراست کو میں جو بھی خراجِ تحسین پیش کروں گا‘ وہ عقیدت میں شمار ہو سکتا ہے‘ لیکن اس تدبر و فراست پر مستشرقین کمال درجہ کا خراجِ تحسین پیش کر چکے ہیں. وہ ایچ جی ویلز ہوں‘ منٹگمری واٹ ہوں یا دوسرے مستشرقین ہوں ‘انہوں نے حضورؐ کے کمال تدبر اور پیش بینی کی جو مدح سرائی کی ہے‘ و ہ کافی ہے. اصل تعریف و شہادت تو وہ ہے جو اَعداء دیں. مدینہ میں بسنے والے اوس و خزرج کے اکثر لوگ ایمان لے آئے تھے. یہی دو قبیلے اصلاً مدینہ کے رہنے والے تھے‘جبکہ یہود باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے. اوس و خزرج کی دعوت پر ہی باذنِ الٰہی حضور نے مدینہ ہجرت فرمائی تھی اور یہاں تشریف آوری کے بعد آپؐ ‘کی حیثیت مدینہ کے امیر‘ حاکم اور مقتدر اعلیٰ کی ہو گئی. آپ ؐ نے ان یہودی قبائل کو اس معاہدے میں جکڑ لیا کہ اگر باہر سے مدینہ پر کوئی حملہ آور ہوا تو سب مل کردفاع کریں گے. یہ معاہدہ تھا جو یہود کے گلے کا طوق بن گیا. یہ معاہدہ نہ ہوتا تو شاید صورتِ حال مختلف ہوتی. واللہ اعلم!

اپنی جگہ پر ایک دوسری بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ مسلمان قوم جب بگڑتی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اس کے اندر ’’وھن‘‘ پیدا ہو جاتا ہے. اس لفظ ’’وھن‘‘ کی حضور نے تشریح یوں فرمائی ہے کہ :حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ . یعنی اس قوم میں دنیا کی محبت اور موت سے ناگواری پیدا ہو جاتی ہے. پھر وہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور ہو جاتی ہے. یہود اُس وقت کی بگڑی ہوئی مسلمان قوم تھی. ان کے اندر وہ ضعف تھا کہ سورۃ الحشر میں اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا: لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآءِ جُدُرٍ ’’(اے مسلمانو!)یہ یہود کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں ) تمہارا مقابلہ نہیں کریں گے‘ لڑیں گے بھی توقلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر.‘‘ان یہودیوں کے برعکس مشرکین نے کھلے میدانوں میں آ کر جنگ کی ہے. ابوجہل نے غزوۂ بدر میں اپنے معبودانِ باطل اور اپنے اوہامِ باطلہ کے لئے دوبدو ہو کر میدانِ جنگ میں گردن کٹوائی. لیکن یہود کا معاملہ یہ ہے کہ جب لڑیں گے تو فصیلوں پر چڑھ کر عورتوں کی طرح پتھراؤ کریں گے. پھر یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں‘ازروئے الفاظ قرآنی: بَاۡسُہُمۡ بَیۡنَہُمۡ شَدِیۡدٌ ؕ تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ (آیت ۱۴تم ان کو اکٹھا سمجھتے ہو‘حالانکہ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں. لہذا تم ان سے گھبراؤ نہیں. بظاہر ان کی جمعیت بہت مرعوب کن ہے‘ یہ بہت پیسے والے ہیں‘ ساز و سامان بھی ان کے پاس وافر موجود ہے‘ اسلحہ بھی ان کے پاس بہت ہے‘ ان کے پیاس گڑھیاں ہیں‘ قلعے ہیں. صورت واقعہ یہ تھی کہ یہ اندر سے اتنے بودے تھے کہ ان میں میدان میں آ کر لڑنے کا حوصلہ نہیں تھا. پھر ان تمام کمزوریوں کے علی الرغم نبی اکرم  نے ان کو معاہدے میں جکڑ لیا تھا. 

اب یہ ہوا کہ یہ مختلف مواقع پر اس معاہدے پر تلملاتے رہے. ان میں سب سے زیادہ شجاع بنوقینقاع تھے. آہن گری اور زرگری کے پیشے کے اعتبار سے ان کے پاس پیسہ بھی تھا اور سامان حرب اسلحہ وغیرہ بھی کافی تھا.غزوۂ بدر کے بعد سب سے پہلے ان کی طرف سے نقض عہد ہوا اور اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی. حضور  نے فوراً اقدام فرمایا اور ان کو مدینہ بدر ہونا پڑا.یہ پہلا موقع تھا. نبی اکرم  نے ان کے ساتھ بڑی رعایت برتی‘ ان کو اپنا تمام ساز و سامان لے جانے کی اجازت دے دی اور وہ اونٹوں پر اپنا تمام اسباب لاد کر گاتے بجاتے ایک جشن کی صورت میں مدینہ سے نکلے. یہ پہلا معاملہ تو ۲ھ میں بدر کے بعد بنو قینقاع کے ساتھ ہو گیا. غزوۂ اُحد کے بعد یہی معاملہ بنونضیر کے ساتھ پیش آیا. اُحد میں مسلمانوں کی عارضی ہزیمت سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے تھے اور یہ قبیلہ دلیر ہو کر مسلسل بدعہدیاں کرتا رہا. یہاں تک کہ اس نے خود نبی اکرم  کو شہید کرنے کی سازش تک کر ڈالی. نبی اکرم نے اس قبیلے کو بھی مدینہ بدر کر دیا اور یہ دونوں قبیلے خیبر کے آس پاس جا کر آباد ہو گئے‘ جہاں یہودی پہلے سے آباد تھے اور انہوں نے بڑی مضبوط قلعہ بندیاں کر رکھی تھیں.